http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Friday, August 10, 2012

قصہ چہار درویش اور تفہیم کے , سمجھ کر پڑھنا، اردو ادب ،کلا سیکل ادب Kawish, Waris Iqbal, Urdu Reading,Reading ,Reading with understanding ,,Comprehension,Urdu Literature,


  کسی بھی نامانوس متن کو سمجھ کر پڑھنے کے بے شمار طریقے ہیں ۔ اس کہانی میں اردو  ادب کے کردار چار درویش  ایک متن سمجھنے کے لئے کچھ طریقے استعمال کر رہے ہیں۔  اس متن کو پڑھنے والے اس مشکل متن کو پڑھتے ہوئے اسے سمجھ بھی لیتے ہیں۔ دیکھئے آپ اس متن کو کتنا سمجھتے  ہیں  اور کیا آپ کسی مدد کے بغیر اس متن کو سمجھ سکتے ہیں ۔ رائے ضرور دیجئے۔ 


قصہ چہار درویش اور   تفہیم کے طریقے
چاروں درویش غارِ جودی میں بیٹھے لوحِ طلسمات پر رقم متن کو سمجھنے کا معمہ حل کر رہے تھے۔ یہ چاروں درویش دیوِ سلسل
 کی قیدمیں تھے۔ دیو نے ان درویشوں کی رہائی کے لئے یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ لوحِ طلسمات پر لکھی تحریر اُسے پڑھ کرسمجھائے کیونکہ اس تحریر میں جاودانی حیات کا راز مضمر تھا۔
 سب سے پہلے بصرہ کے درویش نے لوح اپنے ہاتھوں میں تھامی اورالفاظ و سطور پر ایک عمیق نظر دوڑانے کے بعد یوں گویا ہوا۔ ” برادرانِ من! میں اِس لوح کاہرلفظ پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہوں لیکن مجھ میں اس کے مفاہیم کی سمجھ کی استعدادانہیں کیونکہ اس میں مصنف نے بہت مشکل لفاظی کی ہے۔“
چند لمحے ماحول پر خاموشی چھا ئی رہی ۔ کچھ دیر بعد سیستان کے درویش نے اپنی ریشِ سفید کھجلاتے ہوئے کہا۔ ” تم اِس کے لغوی مفاہیم میں نہ پڑو بلکہ اِس کے کلیُ مفہوم سے معنی اخذ کرنے کی کو شش کرو۔“  ” یہ تو استادِ مکرم نے نہیں سکھایا۔“ بصرہ کے درویش نے معصومیت سے جواب دیا۔
” افسوس ، صد افسوس ! ہم میں سے صرف تمہی ہو جو اِس تحریر کو پڑھ سکتے ہو۔ ہمارے لئے تو یہ لوح علامات سے بھرے کاغذ کے ٹکڑے سے کم نہیں۔ نہ تمہیں یہ عبارت سمجھ آئے گی نہ ہم اس تحریر میں چھپا جاودانی حیات کا راز دیو سلسل کو بتا پائیں گے اور نہ ہمیں اس قید سے رہائی ملے گی۔“ راجستان کا درویش مایوس ہو کر بولا۔ سیستان کا درویش بصرہ کے درویش کے مزید قریب کھسک آیا اور سب سے مخاطب ہو کربولا، ’ ’ گھبراؤ نہیں، ہم اس متن کا ربط اپنی زندگی کے کسی تجربے یا واقعہ سے کرتے ہیں، شائیدکوئی لفظ سمجھ آجائے۔“ بصرہ کے درویش نے کچھ دیر اس تحریر کو دیکھا اور بولا، اس سطر میں ددیکھیں یہ دو لفظ لکھے ہیں ” پھنکار اور انگار “ مجھے یاد ہے ایک دفعہ صحرا میں ایک سانپ اِس زور سے مجھ پر پھنکارا تھا کہ میرے جسم پر سرخ چھالے پڑ گئے تھے۔۔۔۔۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سانپ پھنکارے گا اور جسم پر چھالے بن جائیں گے۔ “
 شکر ہے ایک سطر تو پڑھی گئی۔ راجستان کا درویش بولا۔ ” یہ لکھا ہوا ہے ”صاحبِ ممدوح؟“ بصرہ کے درویش نے ایک اور لفظ کی طرف اشارہ کیا۔  درویش ِفرنگ خاموش بیٹھاتھا۔ اب اُس نے بھی اپنی قوتِ گویائی کے استعمال سے طلسمِ خاموشی توڑا،” جو لفظ سمجھ نہیں آرہا اُس کے اوپر کچھ سطریں پڑھو، کچھ نیچے  اور سمجھنے کی کوشش کرو۔“            درویشِ فرنگ بولا ، ’ صاحبو! نچلی سطر میں لکھا ہے ’ تعریف ‘، میرے خیال میں ممدوح بھی تعریف سے ملتا جلتا لفظ ہے۔“  ”ملتا جلتا نہیں، یہی مطلب ہے۔ تعریف کرنے والے اس کی بے حساب تعریف کرتے ہیں۔“ سیستان کا درویش بولا۔چاروں درویش پھر اس لوح پر جھک گئے۔ بصرہ کا درویش پڑھنے لگا ، ” اشرف البلاد ۔۔۔ اور اشرف البلاد کے نزدیک کوہِ معدن ۔۔‘‘ وہ کچھ دیر کے لئے رکا اور بولا ، ’’ مجھے یاد نہیں آرہا ، سنا سنا لگ رہاہے۔“ بصرہ کے درویش نے اپنے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ” لو ! یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے۔ بغداد کو کہتے ہیں اشرف البلاد ۔“ سیستان کا درویش جھٹ سے بولا۔ ” واہ بھئی واہ! اب سمجھ آیا کوئی بڑا سا شہر جو بغداد کی طرح ہے۔۔۔۔۔“
 ”بغداد کی طرح کیوں بغداد ہی تو ہے کیوں کہ ہم ایران سے بغداد ہی تو جارہے تھے اور اُس پاپی دیو کے ہتھے چڑھ گئے۔ اگر اشرف البلاد بغدادہے تو اِس کا مطلب ہے کہ بغدادکے قریب ہی کوئی جگہ ’ کوہِ معدن ‘ ہے۔ یہ کو ن سی جگہ ہے؟۔“ فرنگ کے درویش نے بھی اپنے علم کا اظہار کیا۔“
دیکھوبھائیو! میرا علم بتاتا ہے کہ بغداد کے پاس کوئی کوہِ معدن نام کی جگہ نہیں۔“ بصرہ کا درویش بولا۔         ” تو آپ عربی جاننے والے مجھے بتائیں کہ کوہ کسے کہتے ہیں اور معدن کیا ہے۔“ فرنگ کے درویش نے کہا۔ ” عربی میں پہاڑ کو کوہ کہتے ہیں اور معدن کا مطلب ہمیں نہیں معلوم۔“ بصرہ کے درویش نے جواب دیا۔” مجھے شک پڑتا ہے کہ معدن کا تعلق دھات سے ہو سکتا ہے کیوں کہ ایک دفعہ ہمارےگاؤں میں دو مسافرآئے تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ وہ پہاڑوں کے ایسے دیس سے آئے ہیں جہاں سے معدنیات نکلتی ہیں تو ہمارے ایک دوست نے سوال کیا تھا کہ معدنیات کیا ہوتی ہیں انہوں نے بتایا تھا۔ لوہا ، پیتل جیسی کوئی دھات“ راجستان کے درویش نے بھی اپنا تجربہ بیان کیا۔” دیکھا بعض لفظوں میں ایسا لفظ چھپا ہوتا ہے جس کے معانی ہمارے علم میں ہوتے ہیں۔تو بات یہ بنی کہ بغداد کے پاس کوئی پہاڑ ہے جہاں سے معدنیات نکلتی ہیں وہاں سے دُورکوئی بَن ہے۔ کسی کو بن کا مطلب آتا ہے۔“ بصرہ کا درویش بولا۔ بن کا مطب جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی کوئی جگہ ہی ہوگی۔“ درویشِ فرنگ کچھ جلدی میں تھا اس نے معاملہ سلجھاتے ہوئے کہا۔“  ” نہیں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے جگہیں تو بہت سی ہوتی ہیں۔ شہر ، گاؤں جنگل، ویرانہ، پہاڑ ۔ “ سیستان کے درویش نے معاملہ پھر اُلجھا دیا۔ ” بس ختم ہوئی بات، شہر کا ذکر ہو گیا پہاڑ کا ذکر ہو گیا بس یہ کوئی جنگل ونگل ہے، کہہ دیں گے اُس دیو سے یہ جنگل یا ویرانہ ہی ہے۔“ بصرہ کے درویش نے کچھ زیادہ ہی جوش دکھایا۔
 ” تم تو اِس طرح کہہ رہے ہو جیسے دیو ِسل ہمارے چچا کابیٹا ہے۔“ سیستان کا درویش بصرہ کے درویش کی بات سن کر غصے میں آ گیا۔”تم لوگوں سے یہ تحریر پڑھی نہیں جائے گی ایسے ہی وقت ضائع کر رہے ہو۔بس چھوڑو اِس کو ، جو دوگھڑیاں زندگی کی ملی ہیں وہ سکون سے گذارنے دو۔“ راجستان کے درویش نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ سب درویش کچھ وقت کے لئے خاموش ہو گئے۔
کچھ دیر بعد بصرہ کا درویش پھر بولا، ” یہ جھیل کون سی ہے ؟مانندِ چشمِ پری زاد۔“  ” اگر آپ سب میرے ایک سوال کا جواب دے د یں تو یہ معمہ بھی حل ہو سکتا ہے۔جھیل کو کس انسانی عضو سے تشبیہہ دی جاتی ہے؟“ سیستان کے درویش نے کہا۔ راجستان کا درویش فوراََ بولا، ” آنکھ سے ، یعنی پری زاد کی آنکھ کی طرح کی جھیل۔ “
 ” لیں جناب مسئلہ حل ہو گیا۔ بغداد سے دور ایک پہاڑ ہے جہاں سے معدنیات بھی نکالی جاتی ہیں، وہاں سے آگے ایک جنگل ہے، اُس جنگل میں ایک جھیل ہے جو پری زاد کی آنکھ کی مانند ہے۔۔۔“ سیستان کا درویش بولتے بولتے رک گیا۔ بصرہ کے درویش نے لوح دوبارہ سےدیکھی  اور خاموشی سے پڑھنے لگا۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد اُس نے کہا،
 ” عزیزانِ من اُس جھیل کے چہار اطراف طبقاتِ حیات۔۔۔۔“
میں بتاتا ہوں ۔ درویش فرنگ نے بات کاٹتے ہوئے کہا، ” میں کچھ عرصہ ایران میں بھی رہا ہوں اِس کا مطلب ہے کہ اِس کے چاروں طرف زندگی موجود ہے یعنی جانور پرندے وغیرہ رہتے ہیں۔“ ” جی پڑھئے۔۔۔۔“ راجستان کے درویش نے بصرہ کے درویش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔” نہیں، آگے میں نہیں پڑھ سکتا۔“ بصرہ کے درویش نے لوح ایک طرف رکھی اور خاموش ہو گیا۔
 اُس کے اِس عمل نے سب کو پریشان کر دیا۔ سب اپنے اپنے انداز میں سوچنے لگے۔ اوہام نے سب کے اذہان کو جکڑنا شروع کر دیا۔” کیا اِس میں لکھا ہے کہ پڑھنے والا اِسے پڑھتے ہی مر جائے گا۔ “ درویش فرنگ نے غصے اور طنز کے ملے جلے سے انداز میں کہا ” نہیں پڑھنے والا نہیں مرے گا بلکہ پڑھنے اور سننے والے دونوں اِسے پڑھتے ہی مر جائیں گے۔“ بصرہ کے درویش نے کہا۔

” تم لوگ اس لوح کے ہاتھوں مرو، میں تو دیو سل سے مل کر بِنتی کروں گا شاید چھوڑ دے۔“ راجستان کے درویش نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ” بیٹھئے بھائی  صاحب!یہ بصرہ کے درویش کی چالاکی ہے۔وہ چاہتا کہ ا س لوح کا راز ہمیں پتہ نہ چلے، کہیں ہم میں سے کوئی جاودانی زندگی نہ پا لے۔“ فرنگ کے درویش نے راجستان کے درویش کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔
 یہ بات سن کربصرہ کا درویش تو جل بھُن ہی گیا ، لیکن پھر بھی اُ س نے برداشت کا دامن نہ چھوڑا اور بولا ” تو سنو، ’حاکم ان کا اِک اژدہائے خطرناک۔ پھنکارے انگارِ سرخ وتر۔محافظِ جواہرِ لاتعداد۔‘ سب کو سمجھ آگئی بات۔“
” کچھ کچھ ، لیکن تم آگے پڑھو “ فرنگ کا درویش بولا۔ درویش کی بات سن کر راجستان کے درویش نے کہا، ” تمہیں مرنے کی بہت جلدی ہے۔“ بصرہ کے درویش نے سب کی طرف دیکھا اور پھر بولا، ” لکھا ہے، ’جواہرِ لاتعداد۔ ان میں اک جوہرِ سفید مانند ِشیِر ، بشکلِ ماہتاب۔جو چھُولے اِسے وہ پائے حیاتِ جاوداں۔‘ سمجھ آگئی۔“ ” نہیں “ راجستان کے درویش نے سب کی طرف دیکھ کہا۔
سیستان کے درویش نے سب کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کی اور یوں گویا ہوا ، ” فکر نہ کرو میں سمجھا دوں گا۔
 جی ! آگے پڑھئے۔“               ” آ گے کیا بس ختم “ بصر ہ کے درویش نے کہا۔ ” دیکھا یہ جھوٹ بول رہے تھے۔ ہم تو زندہ ہیں“ فرنگ کے درویش نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔بصرہ کے درویش  کو فرنگ کے درویش کی بات پر بہت غصہ آیا اور اُس نے جلدی جلدی بولنا شروع کردیا ،  ” تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تو سنو  لکھا ہے ،   پا کر اِس کا علم جو نہ چھوئے وہ پائے موت۔“
سب درویش بصرہ کے درویش کی  بات سن کر کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے  پھر  سب ایک ایک کر کے اُٹھے اوراپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔