http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Thursday, September 30, 2021

پڑھائی ضروری ہے یہ مواد میری کتاب اردو تدریس کے نئے زاوئیے سے لیا گیا ہے۔ جو ورکشاپ کے لیے دیا جارہا ہے۔ اس کاکوئی حصہ نقل کرنا یا اپنے نام کے ساتھ چھاپنا اخلاقی و قانونی جرم ۔

  

پڑھائی

 

 پڑھائی اپنی مہارتوں کے لحاظ سے جتنا سنجیدہ عمل ہے بدقسمتی سے اس کی تدریس اتنی ہی غیر سنجیدگی سے کی جاتی ہے۔پڑھائی ہی وہ بنیادہے جس پر لکھائی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔ اس لیے تدریس ِ پڑھائی کو ناصرف اہمیت دی جانی چاہئے، بلکہ اس میں مؤثرطریقہ ہائے تدریس استعمال کئے جانے چاہئیں۔

پڑھائی  کے معانی کے اعتبار سے پڑھائی کی تدریس کی اہمیت:

Collins English Dictionary &                                       کے مطابق پڑھائی سے مراد کسی بھی طرح کے لکھے یاچھپے ہوئے مواد کے معانی سمجھنا ہیں۔

 Oxford Advanced Learner's Dictionary &کے مطابق کسی بھی طرح کے لکھے یاچھپے ہوئے الفاظ یاعلامات سمجھنے کے عمل کو پڑھائی کہا جاتا ہے۔

Pحروف کوپہچاننا، ان میں فرق کرنا ، انہیں ادا کرنا ، ان کے جملوں میں ربط و معانی کے ساتھ عبارت میں چھُپےہوئے مطالب سمجھنا، پڑھائی ہے۔

 کہنے کو بہت آسان لیکن اسے کرنے کے لیے مسلسل جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں ایک معلم یامعلمہ کے لیے پڑھائی کی تدریس انتہائی سنجیدہ اور ذمہ دارانہ عمل بن جاتا ہے۔ جس میں ذرا سی کوتاہی بچے کو ہمیشہ کے لیے  پڑھائی سے دور کرسکتی ہے۔

پڑھائی کے عمل میں سابقہ علم کی اہمیت:

پڑھائی کی عمارت سابقہ علم پر استوار ہوتی ہے۔جوں جوں بچہ اپنی زندگی کے مراحل طے کرتا ہے اس کےذخیرۂ الفاظ کی تعداد ایک لفظ سے بڑھ کرسینکڑوں اور ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔کمرہ ٔ جماعت  اس کے سابقہ علم یعنی ذخیرۂ الفاظ کو ترتیب و ربط دیتا ہے، الفاظ سے الفاظ جڑتے ہیں، جملے سے جملے اور پھر وہی بچہ ایک فعال قاری بن جا تا ہے۔ لیکن اگر کسی بھی مرحلےپر اُس کی رہنمائی میں کوتاہی برتی جائے تو وہ ہمیشہ الفاظ و عبارت کے مجموعے کتاب سے راہِ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ پڑھائی کرواتے ہوئے ہمیشہ بچے کے سابقہ علم اور سابقہ مہارتوں کواہمیت دی جانی چاہئے۔ عام طور پر ہم بچوں کو پڑھائی کرواتے ہوئے اس پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم جو پڑھا رہے ہیں بچے کے پاس اس کی بنیادیعنی سابقہ علم ہے ہی نہیں۔ یاپھر جو ہم پڑھا رہے ہیں وہ بچے کے لئے بے کار ہے کیونکہ اس کے پاس اس کامضبوط سابقہ علم موجود نہیں ہے۔ مثلاََ اگر کسی ایسے بچے کو حرف ’ س ‘ پڑھایاجائےجو ارکان بھی پڑھ لیتا ہو تو اس کے لئے پڑھائی کے تمام تر عمل اور معلم معلمہ کی تما م تر کوشش میں کوئی دلکشی نہیں رہتی۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑھائی کے تمام مراحل میں بچوں کے سابقہ علم کو اہمیت دی جائےاور بچوں کے لئے پڑھائی کا مواد منتخب کرتے ہوئےاُن کے سابقہ علم کا دھیان رکھاجائے۔          

پڑھائی کے عمل میں صوتیات کی اہمیت:

پڑھائی کے عمل میں صوتیات (Phonological awareness) کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔

صوت سے مراد آواز ہے۔ چوں کہ ہر حرف ایک مخصوص آواز کا حامل ہے۔ اس لئے صوتیات کے علم کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ بچہ صوتیات کی مدد سے جلد حروف و الفاظ جلد ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صوتیات کے استعمال کو پڑھائی کے کسی بھی مرحلے اور درجے میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔

پڑھائی کے عمل میں روانی کی اہمیت:

پڑھائی  کے عمل میں الفاظ کی ادائی کے ساتھ ساتھ روانی کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ روانی کی وجہ سے بچوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اوریہی اعتماد ان میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ بچوں کی پڑھائی میں روانی پیدا کرنے کے لئے اُن الفاظ کا استعمال زیادہ ہونا چاہئے جو عام طور پر استعمال ہوتے ہیں اور بچوں کو بھی ان کی اہمیت سے آگہی دی جانی چاہئے۔ مثلاََ ہے ، ہیں ، تھا ، تھے ، تھی ہے، وہ ،ہم ، میں وغیرہ۔ اگر بچے ان الفاظ کو پڑھنے اور سمجھنے کے قا بل ہیں تو وہ ان کی مدد سے جملہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔جوں جوں بچے کا ذخیرۂ الفاظ اور اس کی پہچان و سمجھ بڑھتی جاتی ہے پڑھائی اور اس کے فہم میں آسانیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ صرف پڑھنے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے اور سننے سے بھی ہوتا ہے۔ اس لئے پڑھائی کی تدریس میں دیکھنے اور سننے کی اہمیت کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

الفاظ کی دو اہم  اقسام :

عام استعمال کے الفاظ :

یہ الفاظ بہت اہم ہیں کسی بھی زبان کی عمارت انہی الفاظ پر استوار ہو تی ہے۔ انگریزی میں ان الفاظ کو  High frequency words کہا جاتا ہے۔

یہ الفاظ ابتدائی نوعیت کے ہیں جیسے میں ،ہم ،تم ، وہ ،نہیں ، کیا ، تھا ، تھے ، تھی ،  میں  ، اس،اُس وغیرہ

نئے الفاظ :

یہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو بچوں کے لئے نئے ہوتے ہیں  یا پہلی دفعہ اُن کے علم میں لائے جاتے ہیں ۔ چونکہ ان الفاظ کو جماعت میں بچوں کے سامنے آویزاں کیا جاتا ہے ۔اس لئےان الفاظ کو انگریزی میں Sight words کہاجاتا ہے۔

پڑھائی کے عمل میں ادائیگی کی اہمیت:

پڑھائی کے تمام تر عمل میں  الفاظ کی درست ادائیگی کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔چونکہ اردو میں حروف جڑتے ہیں اور جڑ کر مختلف شکلیں  اختیار کرتے ہیں ۔اس لئے بچوں کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔اگر ابتدائی جماعتوں  میں بچوں کی اس حوالے سے تر بیت کی جائے اور اُنہیں آزاد کیا جائے تو بڑی جماعتوں میں وہ  فعال اور آزاد قاری بن جاتے ہیں ۔

پڑھائی کے عمل میں فہم کی اہمیت

فہم کو پڑھائی سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ عمومی طور پر جسے ہم پڑھنا کہتے ہیں وہ محض الفاظ کی ادائیگی ہے۔ میرے خیال میں جب ہم لفظ پڑھائی یاپڑھنا استعمال کریں تو اس سے ہمارا مطلب سمجھ کر پڑھناہونا چاہئے۔ اس متن میں پڑھائی سے ہماری مراد سمجھ کر پڑھنا ہے۔ گویاکہ تفہیم یافہم پڑھائی سے الگ نہیں۔جو بھی چیز ہماری نگاہوں کے سامنے سےگزرتی ہے ہم اپنے سابقہ علم  اور کئی طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے اس سے معنی اخذ کر لیتے ہیں۔ یعنی ہم متن کے حوالے سے معنی اخذ کرتے ہیں۔

Calkins(1991) کے مطابق بچوں کو متن کے حوالے سے معنی اخذکرنا سکھایا جانا چاہئے۔ بعض ماہرین کے خیال میں یہ عمل اس وقت ہونا چاہئے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور پُر اعتماد ہو جاتے ہیں لیکنAnderson and Pearson( 1984) کے نزدیک بچوں کو متن سے معنی اخذ کرنا شروع سے ہی سکھایا جانا چاہئے۔      ا س حوالے سے میں بھیAnderson and Pearson( 1984) کی رائے کا قائل ہوں۔

(Jones 1992) کے خیال میں پانچ عمل ہیں جو کوئی بھی قاری( پڑھنے والا) استعمال میں لا کر پڑھائی کو اپنے لئے قابلِ استعمال یا مؤثر بناتا ہے۔

              ۱۔                         متن میں غیر ضروی مواد کو نظر انداز کرے

              ۲۔                        بار بار دہرائی گئی معلومات کو نظر انداز کرے

              ۳۔                        معلومات کی درجہ بندی کرے

              ۴۔                        موضوع کے مطابق ضروری معلومات کو سامنے رکھے

              ۵۔                        موضوع کے مطابق خود سے معنی اخذ کرے

پڑھائی کے عمل میں حوصلہ افزائی کی اہمیت:

پڑھائی کے مختلف مراحل میں بچوں کی حوصلہ افزائی بھی پڑھائی کے مجموعی عمل کو مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ معلم /معلمہ کو پتہ ہونا چاہئے کہ کس بچے کی کس طرح حوصلہ افزائی کرنا ہے۔حوصلہ افزائی سے بچوں میں پڑھائی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

پڑھائی کے عمل میںSkimming and scanning کی اہمیت:

 Skimming and scanning دو ایسےطریقے ہیں جو پڑھائی میں استعمال ہوتے ہیں۔Skimming              کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی متن کے اہم نکات تلاش کرنے ہوں۔ یہ عمل تیزی سے دو تین بار  دہرایا جاتا ہے۔ جب محدود وقت ہو اوربہت زیادہ مواد میں سے تحقیق کرنا ہو تو یہ طریقہ سود مند رہتا ہے۔

Skimming         کے لئے لوگ بہت سے طریقے استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاََ کچھ لوگ متن کا پہلا اور آخری پیراگراف پڑھتے ہیں یا پھر سرخیاں اور شہ سرخیاں پڑھ لیتے ہیں۔ کچھ محض خلاصہ پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ عمومی طور پر کسی متن سے تواریخ، نام یامقامات کے حصول کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر ہمیں ٹیلی فون  ڈائریکٹری سے کوئی خاص نمبر تلاش کرنا ہویالغت میں سے کوئی خاص لفظ تلاش کرنا ہو تو ہماری نظر الفاظ و حروف پر رہتی ہے۔ بعض اوقات ہم ایک نمبر یاایک ایک لفظ پڑھتے ہیں۔ اسے Scanning کا نام دیاجاتا ہے۔ اس عمل میں ہماری آنکھیں الفاظ اور جملوں پر حرکت کرتی ہیں اورہم اپنی مطلوبہ معلومات یا سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

پڑھائی کی ادائیگی اور صوتیات:

اوپر ہم نے  پڑھائی کی سمجھ کی بات کی ہے۔ لیکن جب ہم پڑھائی  کے اُن مسائل کا ذکر کرتے ہیں جواردو پڑھائی کرتے ہوئے طلبا کو درپیش ہوتے ہیں تو اُن میں ادائیگی سر فہرست ہے۔ جب بچے لفظ کی ادائیگی میں الجھے رہیں گے تو کسی بھی متن کو سمجھنا اُن کے لئے جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔یوں  چھوٹی جماعتوں کی معلمات یا معلمین پر  اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔تاہم یہ ضروری ہے کہ تمام معلمین اور معلم  صوتیات کو سیکھیں ، بچوں کو سکھائیں  اور جہاں ضرورت پڑے  وہاں استعمال کریں۔

صوتیات اردو پڑھائی کی شہ رگ ہے۔اگر اردو معلمین  صوتیات کو سمجھ لیتے ہیں اور بچوں کو سمجھا دیتے ہیں  تو بچوں کے لئے پڑھائی کاسفر بہت آسان اور تیز ہوجائے گا۔

صوتیات کے لئے میں نے یو ٹیوب پر کچھ مشقیں رکھی ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

حروف کی انفرادی ادائیگی کے بعد صوتیات میں  دوسرا اہم مرحلہ حروف کو جوڑ کر ارکا ن یا الفاظ کی ادائیگی کرنا ہے۔  

ہر حرف ایک آواز ہے جب دو آوازیں یا حرف باہم ملتے ہیں تو انہیں رکن یا رکنیہ کہا جاتا  ہے۔ جیسے  ب+ا=با

یوں ارکان  دیگر ارکان  یا ساکن حروف سے ملتے ہوئے الفاظ بناتے جاتے ہیں۔ جیسے با+با=بابا                     اسی طرح      با+پ=باپ

یاد رکھئے کہ جو الفاظ نہیں جڑتے انہیں ساکن کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ۴۱ صوتیات کی فہرست پیش کی ہے۔

اردو میں درجِ ذیل حروف کو مصوتے یا مصمتے کہا جاتا ہے۔انگریزی  میں انہیں Vowels کہا جاتا ہے۔

ا،ی،ے،و

اسی طرح درجِ ذیل علامات ،زیر ، زبر،پیش،اور مد(                                             ٓ                     ) ثانوی مصوتے کہلاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جتنے بھی حروف ہیں انہیں صحیحے کہا جاتا ہے انگریزی میں انہیں Consonantکہا جاتا ہے۔

صوتیات میں درجِ ذیل اعضائے تکلم کو بہت عمل دخل ہے۔

زبان،ہونٹ، دانت، تالو، نوکِ زبان،زبان کا درمیانی حصہ، زبان کا پچھلا حصہ، حلق وغیرہ

اردو میں دو چشمی  ھ کے ساتھ جب حروف جڑتے ہیں تو انہیں بھاری آوازیں کہا جاتا ہے۔یہ تمام بھاری آوازیں بھاری حروفِ تہجی بھی کہلاتے ہیں۔

صوتیات میں ادائیگی

صوتیات میں ادائیگی مشکل نہیں بلکہ سیدھی اور ایک لے میں ہے  عام طور پر یہ حروف کی آواز کے پہلے حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔  جیسے  ’ ج ‘  کو جیم  کہاجاتا





گویا پڑھنے کے لئے صوتیات کا اسی طرح استعمال کیا جانا چاہئے۔ اس طرح بچے بڑے سے بڑے لفظ بھی صوتی انداز میں آسانی سے پڑھ لیں گے۔

صوتیات میں حروف کو حروف سے جوڑنا کافی سنجیدہ عمل ہے اس میں کی جانے والی غلطی سے سیکھنے والا ابہا م کا شکاربھی ہوجاتا، اس لئے ضروری ہے کہ الفاظ میں  حروف کی                                              آوزیں پڑھتے ہوئے احتیاط کی جائے۔ مثلاً   بابا پڑھنے کے دو انداز دیکھئے۔

پہلا انداز :  ب+ ا+ب+ا                                                                                    بابا

دوسرا انداز :   ب+ا=با                                                                                                                                                                                           ب+ا=با                                                                                                               بابا

اس میں دوسرا انداز درست ہے یعنی  ہر رکن کو الگ  کر کےپڑھا جائے۔

مختصر یہ کہ صوتیات کو پڑھائی اور لکھائی دونوں میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

 

Thursday, July 1, 2021

افسانہ اوور کوٹ غلام عباس ،اردو نثر کی تدریس،ترتیبِ نو


جام شورو کے باسی

جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلو بند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔

یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔

اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے “نو تھینک یو” کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔

جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔

راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔

ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔

نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا ی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

https://www.facebook.com/groups/1262241867483962
۔۔۔۔۔۔

لاہور کے باسی

مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔

نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔

ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔

پان والا!۔

جناب!”

دس کا چینج ہے؟

ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟

نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟

اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟

نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔

لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔

ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ پور لٹل سو ل


https://www.facebook.com/groups/1262241867483962

کراچی کے باسی

اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔

تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔

اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔

تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔

پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔

گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟

نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔

فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔


مری کے باسی

’’ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟  چودہ سو تیس روپے ہے۔نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا “اوہو اتنی۔

دکاندار نے کہا “آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔

شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔

شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔

وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔

اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی “اوہ سوری” کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔

اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔

ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔

سنو میرا کہنا مانو” لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا “ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔

نہیں، نہیں، نہیں۔

میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔

لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔



ہنزہ کے باسی

’’تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔

چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔

نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔

اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔

جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔

اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔

فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔

شہناز نے گل سے کہا:

کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔

گل دبی آواز میں بولی۔



 مستونگ کے باسی

خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔

 ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟

نہیں بھاگ گیا۔

کتنے افسوس کی بات ہے۔

آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔

اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔

نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:

ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔

افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔