اگر ہم قوموں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہٹ دھرمی، جدت
اور تخلیق سے انکار اور خود پسندی تقریبا
ہر قوم کا کسی نہ کسی دور میں وطیرہ رہا ہے۔ جن قوموں نے تبدیلی کو قبول کر لیا وہ مادی اور روحانی لحا ط سے ایک قوم بنی رہیں اور دیگر قوموں کے سامنے بھی سینا
تانے کھڑی رہیں مثال ہے چین اور مثال ہے ایران ، انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور بہت سے ملک۔
جب مارٹن لوتھر نے بائبل کے ترجمہ کی بات کی تھی تو لوگوں نے اسے کافر اور
مسلمانوں کا ایجنٹ کہا تھا اور پھر وقت نے دکھایا
کہ عیسائی قوموں نے وہ سب کچھ کیا جو مارٹن لوتھر نے کہا تھا۔
میں نے اتنی لمبی تمہید اس لئے ترتیب دی ہے کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں اُس پر
غور کیا جائے نہ کہ یہ کہہ کر رد کردیاجائے کہ ہمارے بڑے چونکہ اس طرح کرتے تھے ہم
بھی ویسے ہی کریں گے۔
بات بہت چھوٹی سی ہے لیکن ہے بہت اہم۔ وہ یہ کہ میری یہ سوچ ہے کہ جو لفظ
ہماری زبان میں دوسری زبانوں سے آئے اور انہیں ہم نے اپنی زبان کا حصہ بنا لیا وہ
اُسی طرح ادا کئے جائیں جس طرح اُس زبان میں ادا کئیے جاتے ہیں جہاں سے وہ لفظ لئے
گئے۔ مثلاجِہَت کو ہم جَہَت نہیں کہہ سکتے
اسی طرح جَوہَر کو جوہر نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے کہ عربی لوگ ان لفظوں کی اسی طرح
ادائیگی کرتے ہیں۔ اسی طرح فارسی ، ہندی
اور دیگر زبانوں کے لفظ وغیرہ تو پھر ہم
انگریزی کے الفاظ کو اُسی طرح ادا کیوں
نہیں کرتے جس طرح انگریزی میں انہیں ادا
کیا جاتا ہے۔ مثلا ہاکی کو ہوکی
اور ڈاکٹر کو ڈوکٹر بکس کو بوکس
کیوں نہیں کہتے اگر ہم کالم کو ستون کی بجائےکالم ہی کہتے
ہیں اور رپورٹ کو وقوعہ یا وقائع کی بجائے رپورٹ ہی کہتے ہیں تو پھر انگریزی زبان کے قواعد کے مطابق اپنی زبان کے
قواعد میں کیوں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہمیں یہ تبدیلی
لانی چاہئیے یا نہیں۔
دوسرا مسئلہ ہے، ’’ انارکلی ڈسکو
چلی‘‘ کیا ہم اپنے کلاسیکل ادب کو بچوں کے لئیے ان کی عمر کے مطابق آسان کر کے
پیش نہیں کر سکتے۔ اگر مراۃ العروس بچوں
نے آسان زبان میں جماعت پنجم میں پڑھی ہو تو کیا
او لیول میں وہ زیادہ آسانی سے اور دلچسپی سے نہیں پڑھ سکیں گے۔ تو میرا
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیاہمیں کلاسیکل ادب بچوں کی عمر کے مطابق آسان کر کے پیش نہیں کرنا
چاہئیے۔،