http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Monday, February 22, 2021

سفرنامہ شنگریلا کی تلاش قسط ۲۳

 


سورج کسی دیوانے کی طرح برف پوش پربتوں کے ویرانوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھک  کر   کہیں سو گیا تھا۔تاہم آسمانِ لازوال پر اُس کے ہونے کے نشان ابھی بھی باقی تھے۔

 ٹھنڈ تھی کہ سانسوں کے دریچوں سے گزر کر رگ رگ  میں سماتی تھی۔


  کالی گھٹاؤں  نے پہاڑوں کو اپنے دامن میں چھپا لیا تھا اور اُن کے سروں پر بیٹھی راج کرتی تھیں۔

’’وہ وہاں برف باری ہورہی ہے۔‘‘

ہم میں سے کسی نے کہا تھا۔

سیاہ گھٹاؤں  کی رداؤں سے نیچے سفید بادل تیرتے ہوئے نیچے کو بڑھےآتے تھے۔ جیسے محبوب کے دیدار کی لگن میں  بانکوں کے قافلے  پیا کی گلی کی طرف بھاگتے چلے  جاتے ہوں۔ شاید دریا کا کنارا اُن کی منزل تھی۔جہاں ہم کھڑے تھے۔

 دو نوکیلی پہاڑیوں کے درمیان میں لکیر سا جھرنا صدائیں بلند کرتا نیچے کو چلا آتا تھااور دریائے ہنزہ  کے سکون کا محل تاراج کرتا تھا۔

 ریت کا ایک ٹیلا اایک پہاڑی سے یوں چمٹا تھاجیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے سینے سے چمٹا ہو۔

پہاڑی کی دہلیز پر سبز گھاس کا ایک قطعہ بچھتا جاتا تھا۔  جھرنے کی دو شاخیں سفید لکیروں کی طرح گھاس کے اس سبز قالین پر خراماں خراماں چلتی ہوئی دریا میں گرتی تھیں۔

’’ یہاں ایک بستی تھی رات کو اوپر سے پانی آیا اور پوری بستی کو بہا کر دریا میں لے گیا۔‘‘

وقار جو  پشتو گانوں میں  کھویا ہوا تھا پہاڑیوں کے نیچے پھیلے اُس سبز  میدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اچانک بولا۔

میں نے غور کیا تو چند سوکھے پودوں  کی کسمپرسی اس افتاد کی شاہد تھی۔

پہاڑوں کے پیروں میں پڑے گھاس کے اس قطعے پرایک پُراسرار اور ٹھنڈا سایہ پھیلا ہوا تھا ۔ جسے دیکھتے ہوئے   جسم جھر جھری لیتا تھا۔  وہا ں کا سکوت   چیختا تھا ، خامو شی نوح کناں تھی۔۔۔  بے بسوں کی چیخیں  پہاڑیوں سے ٹکرا  ٹکراکربین کرتی تھیں ۔ کوئی یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ گھاس کے اُس ویران اور خاموش قطعے پر کچھ ماہ پہلے ایک پوری بستی موجود تھی۔

کچھ عرصہ پہلے یہاں ناریاں دریائے ہنزہ پر جھکی ہوئی  ۔۔۔۔ اپنی جوانیوں کو دریائے ہنزہ کے پانیوں میں غسل دیتی ہوں  گی۔ ایک دوسرے کو اپنی محبتوں کے قصے سناتی ہوں گی ۔۔۔۔۔۔اور پھر خوب ہنستی ہوں گی ۔چنچل ہوائیں انہیں مدھر گیت سناتے ہوئے اُن کے گالوں کے تل چومتی ہوں گی۔۔۔۔اور اتراتی ہوں گی۔

منچلے اپنے ریوڑ لئے برفوں سے اٹے مرغزاروں کی طرف بڑھتے ہوں گے۔

کوئی کسی چٹان پر بیٹھا اپنے محبوب کی راہ تکتا ہو گا۔

کوئی کسی کھڑکی سےکوٹھڑی کے اندر کود کر  کسی کو گدگداتا ہو گا۔

 اُس بھیانک رات کسی دادی یا نانی نے بچوں کو پرستان کی کہانی سنائی ہوگی۔

کسی حسینہ نے  سہانے کل کے سپنے دیکھے ہوں گے۔

مگر فنا کی آندھی سب کچھ اپنے ساتھ اُڑا کر لے  گئی اور اس  جگہ کو گھاس کے ایک ویران قطعہ میں بدل گئی۔

 ان پہاڑوں میں ایسی کتنی ہی بستیاں ہوں گی جو برفانی طوفانوں اور بھپرے پانیوں کے نذر ہوئی ہوں گی یا نشانے پر ہوں گی۔

ہم دریائے ہنزہ کے کنارے کھڑےسامنے کی پہاڑیوں پر نظریں جمائے تھے۔میں ان مناظر میں اس طرح کھویا ہوا تھاجیسے سارا لینڈ سکیپ میرے سامنے تشکیل پا رہا ہو۔ جیسے نیلے آسماں سے ملبہ اتر رہا ہو اور ہمارے سامنے منظر در منظر بنتے جاتے ہوں۔ جیسے کوئی بچہ پلیڈو سے  یہ پہاڑاور میدان تخلیق کرتا جاتا ہو۔

میں نے پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھا تو ٹھنڈ  نے میری نگاہوں تک کو منجمد کر دیا۔   پہاڑوں کے اس دیس میں ہوائیں بھیگی ہوئی تھیں اور دھوپ ٹھٹھرتی  تھی ۔

  کتنے ہی گلیشئیرز راستوں کی طرح ان کے اند ر سماتے تھے۔ جیسے  یٹوپیا کا راستہ ہو یا شنگریلا کی راہگزر۔ لگتا تھا یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شنگریلا کی بستی کو راستہ جاتا ہے۔

 انہی پہاڑی فصیلوں کے اندر ہی کہیں شنگریلا کا  معبد ہو گا، ندی ہوگی جس کے کنارے  بچے کھیلتے ہوں گے اور کلکاریاں بھرتے ہوں گے۔رنگوں کی دنیا میں حسینائیں اپنے محبوں کا انتظار کرتی ہوں گی۔ کتنے بانکے جوان کھیتوں  میں اپنا رزق تلاش کرتے ہوں گے۔

میں اپنی شنگریلا کی تلاش میں ایسے جوگی کی طرح بھٹک رہا تھا  جسے سنہری سانپ کی تلاش ہو۔

 میری شنگریلا یہیں کہیں تھی۔۔۔۔یہیں کہیں انہی پہاڑیوں کے اندر ، انہی پرفوں سے پرے۔

’’ او مائی گاڈ اٹس فئیری لینڈ۔‘‘

زین بھی اس قدرتی حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

دراصل ہر کسی نے اپنے خیالوں میں کہیں نہ کہیں کوئی شنگریلا بسائی ہوتی ہے، جونہی اُسے اُس سے ملتا جلتا کوئی منظر دکھائی دیتا ہے  تو اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں بسا خواب نگر حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔

پسو کونز، پسو کیتھڈرل۔۔۔یہ وہ نام ہیں جو ان چوٹیوں کو دئیے جا چکے ہیں۔عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں نوکیلی نہیں ہوتیں ، وہ کوئی ڈھیریوں جیسی ہوتی ہیں مگر یہ نوکیلی تھیں جیسے کسی بچے نے اپنے آرٹ پیڈ پر بنائی ہوں۔ قدرت کے آر ٹسٹ نے  جانے کیا سوچا اور پسو کے آرٹ پیڈ پر یہ شاہکار  بنا دئیے۔۔۔۔

 یہ فطرت  کے کسی باپردہ جہاں کا ایک عظیم دروازہ تھا۔۔۔۔ پہاڑوں کی فصیلوں میں گھرا دروازہ۔ اس کے اندر رینگتا دریائے ہنزہ۔ جس کے  پُرسکون پانیوں پر  سفید ریت اس طرح پھیلی تھی کہ آرٹ کاایک نمونہ وجود میں آ گیا تھا، لہریا دار۔ سلوٹوں سے بھرے بستر کی چادر ہو جیسے۔۔۔جو رات کی ساری کہانی بتاتی ہو۔

 اس سرمئی ریت کی کوکھ سے ہنزہ کونز اٹھتی تھیں ،نکھری نکھری، دُھلی دُھلی ، ایک خاص قسم کا تقدس لئے ہوئے۔  سرمئی رنگ کے ساتھ پیلاہٹ اور کتھئی  بانکپن  لئے ہوئے ۔۔۔۔نوکیلی  اور سنہری  پھبن لئے ہوئے ۔۔۔

جیسے کسی جادوگرنی نے اپنی حنائی  زلفیں لہرائی تھیں  اور وہ وہیں پتھر کی ہو  گئی تھیں۔ پھرفطرت کے رکھوالوں نےاُن پر سفید چادر ڈال دی تھی۔ جو ذرا سا سرکتی تو حشر برپا کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔

  یہ تہہ در تہہ تھیں ۔۔۔۔۔   قطار میں تھیں ۔۔۔۔۔ جیسے کچھ بانکی مٹیاریں تصویر  یا سلیفی بنانے کے لئے کھڑی ہوں۔ ۔۔۔۔ مگر ہر ایک دوسری سے بڑھ کر۔۔۔ حسین ۔۔۔غارت گر۔

 میں نے اپنے کیمرے کا فوکس کیا اور اُڑتے  ہوئے ان چوٹیوں کے اوپر پہنچ گیا۔ میں کس پہ رکوں، کہاں پڑاؤ کروں ، یہاں تو ہر جہت ، ہر منظر ہی دلفریب ہے، ہر گوشہ ، ہر کونہ ہی جنت نظیر ہے ۔۔۔پھر مجھے سبزے کا ایک چھوٹا سا میدان دکھتاہے جسے قدرت کے فن کار نے بنایا  اور اس پر سفید چادر ڈال دی ۔۔۔جونہی چادر کا ایک کونہ ہٹا تو وہ میرے سامنے آیا ۔۔۔یہی ہے جنت کی دہلیز ۔۔ میں نے سوچا۔۔۔۔یہیں کہیں کوئی بڑا سادروازہ ہوگا۔۔۔۔جنت کا دروازہ۔۔فردوس کا دروازہ۔۔   یہیں کہیں ہو گی میری شنگریلا جس کے میں خواب دیکھتا ہوں۔۔۔مجھ سے پہلے کئی اس کی چاہ میں کوہ نورد رہے۔۔کوئی اسے نہ پا سکا مگر نہ چاہنے والے کم ہوئےاورنہ چاہنے والوں کا عزم ٹوٹا۔ سفید دودھ جیسا گلیشئیر نیچے کو آتا تھا۔شاید وہ جنت کا راستہ تھا۔۔۔۔ میں مزید زوم کر کے کچھ تلاش کرتاتھا۔۔۔ شاید کوئی پری یا کوئی حور۔۔

 ہم سب شاہرائے ریشم کے کنارے  ہنزہ دریا سے اوپر پھیلے ہوئے پسو کونز کے حسین مناظر سے لطف اٹھا رہے تھے۔ہواؤں کی آوازیں تھیں  گویا  بہت سے کبوتر اُڑان بھرنے کے لئے اپنے پر پھڑ پھڑا رہےتھے۔ وہ ہمیں دھکیل رہی تھیں ۔۔یہاں سے ہٹنے کو کہہ  رہی تھیں  مگر  ہم میں سےکوئی بھی یہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ ہر کسی  میں  جرمن  آرٹسٹ فریڈرک کیسپر کی روح سمائی ہوئی  تھی جو اس منظر کا ایک ایک گوشہ اور ایک ایک  لمحہ قید کرنا چاہتا تھا۔۔۔ محفوظ کرنا چاہتا تھاکہ باقی زندگی انہی خوبصورت یادوں کے سہارے گزرے گی۔

 سب ایک ہی طرف سے آتے ہیں اور ایک ہی طرف  کوچلے جاتے ہیں۔  کچھ ہیں جو  عملوں کی بوریاں بھر کر لے جاتے ہیں کچھ ان کے ساتھ قدرت کی خوبصورت کے خزانے بھی لے جاتے ہیں ۔ وقت سب کا ہی گزر جاتا  ہے ہنستے ہوئے یا روتے ہوئے  مگر جو وقت  فطرت کے قریب گزرتا ہے وہ  امر ہو جاتا ہے۔

فطرت کی خاموشی  ایسے ہی روح میں  اُترتی ہے جیسےسورج کی روشنی پیڑوں پر۔

 جب ہواؤں کی سیٹیاں دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کانوں  میں اترتی ہیں تو وجود ستار کے تاروں کی طرح کانپتا ہے۔ اس لطف کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نہ  اس قلبی واردات  کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔  بس مجھے اتناپتہ ہے کہ  یہاں میں سرخرو ہوجاتا ہوں ۔۔ نیا ہوجاتا ہوں۔۔۔۔شاید دوبارہ پیدا ہوجاتا ہوں ۔۔۔ میرے اندر سےوسوسوں ، لغزشوں اور میل کا سارا بوجھ   خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ جاتا ہے۔

’’فیری لینڈ‘‘

 کسی نے کہا تھا۔

 ہاں فیری  لینڈ ۔۔ہر منظر ہی فیری لینڈ کا تھا۔۔۔۔۔ پریوں کی بستیاں کتنی۔۔۔۔۔۔ ان گنت۔

 بادلوں کی گڑ گڑاہٹ ہوئی اور دوپہر کے دو بجے ہی شام ہوگئی۔

’’ میں کہتا بھی رہا جلدی کرو مگر کسی نے ایک نہ سنی۔‘‘

 میری نگاہیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی  تھیں۔

’’  جی سرخنجراب جا کر واپس نہیں آ سکتے رات ہوجائے گی۔‘‘

وقار نےاپنی چادر سمیٹتے ہوئے  رائے دی۔

 ’’ یہ سب قصور بھائی  کا ہے یہ اٹھتا ہی نہیں۔‘‘

 زین اپنی دشمنیاں نکال رہا تھا۔ اسے تو موقع  چاہئے تھا۔

’’ سر! یا تو ہم پسو میں رک جائیں یا پھر سوست میں ۔ خنجراب نہیں جا سکتے۔‘‘

 میں نے اپنے سامنے پھیلی شاہراہ کو دیکھا۔۔۔  سامنے درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔انہی میں کہیں پسو کی بستی تھی۔

’’ پھر پسو کو ہی  اپنی میزبانی کا شرف بخشا جائے۔ ‘‘

’’وقار ہوٹل تمہاری پسند کا ۔۔۔یا پھر میں دیدار سے رابطہ کروں۔‘‘

دیدار ہنزئی لاہور میں میرے  دوست ہیں جو پسو کے رہنے والے ہیں۔ جب میں ہنزہ آ رہا تھا تو انہوں نے تاکید کی تھی کہ  پسو میں رکیں اورا ن کا گھر استعمال کریں ۔  مگر میں نے انہیں یہی بتایا تھا کہ ہمارا وہاں رکنے کا ارادہ نہیں۔

’’ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے سر ادھر میرے دوست بھی ہیں ۔۔ مگر ہم ہوٹل میں رہیں گے۔۔ وہ آپ میرے پر چھوڑ دیں۔‘‘

میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا اور میری نگاہیں  پسو کونز کے جنت کدوں پر  جا پھیلیں۔جہاں برف کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ اور سفید آندھیاں چلتی تھیں ۔۔۔۔برف کے سفید قلعوں کی کھڑکیوں  میں مکینوں کو تلاش کرتی تھیں ۔