http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Sunday, November 24, 2013

a link for Urdu Kids

Mirror of ancient Civilizationہڑپہ ساہیوال پنجاب پاکستان

ہڑپہ وادی سندھ کی قدیم تہزیب کا مرکز تھا۔ یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک رہا۔ یہاں چالیس ہزار کے قریب آبادی رہی۔


یہ شہر 1922 میں دریافت ہوا لیکن اسکی بہت ساری اینٹیں۔ لاہور ملتان ریلوے بنانے میں صرف ہو چکی تھیں۔ اس جگہ کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائیٹی بھی اس کام میں شامل ہے۔دنیا میں تقریبا پانچ ہزار برس قبل تین تہذیبیں معرض وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی ہے وادی سندھ کی تہذیب سلسلہ ہمالیہ کے دامن سے لیکر بحیرہ عرب تک تقریبا چار لاکھ مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اسکا رقبہ اپنی دونوں ہمعصر تہذیبوں کے رقبے سے دوگنا ہے اور اب اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایک ہڑپہ بھی شامل ہے۔قدیم ہڑپہ شہر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے بنے ہوئے شہر اور عوام کی ضرویات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کا نظام اکیسویں صدی کے لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔قدیم ہڑپہ شہر تقریبا پانچ ہزار تین سو سال قبل یہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور چار ہزار چھ سو سال قبل یہ لوگ ترقی کے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ یہاں کے باشندے تاجر اور زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔قدیم ہڑپہ کے آثار تقریبا ایک سو پینسٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کی دریافت حادثاتی طور پر 1890 میں اس وقت ہوئی جب لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو ریلوے ٹریک کیلئے اینٹوں کی سپلائی دینےوالے ٹھیکیدار نے ہڑپہ میں اینٹوں کی کان دریافت کی ہوئی تھی اور یہاں سے اینٹیں لا کر ریلوے لائن کی تعمیر میں لگائی جاتی رہیں اور جب بعض افسروں نے اینٹوں کی مخصوص ساخت کو دیکھا اور تحقیق کی تو 1920 میں جا کر پتہ چلا کہ یہ اینٹیں ہڑپہ کے قدیم شہر کی تھیں چنانچہ 1920 میں ہی اس علاقے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔مگر تب تک قدیم تاریخ کا یہ جدید شہر اجڑ چکا تھا اور جب اس وقت کی حکومت نے یہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا تو نامناسب حالات کی وجہ سے یہاں سے ملنے والے نواد

















رات کی حفاظت نہ ہو سکی۔                       ماخوذ وکیپیڈیا

Hiran Minar a beautiful Historical place in Pakistan, Historical buildings , education , Waris Iqbal, Moghal Buildings

ہرن مینار


ہرن مینار پاکستان کی تاریخی عمارات میں سے ایک مشہور عمارت ہے۔ جو اپنے خاص محل وقوع، ماحول، کشادگی، فن تعمیر اور وجہ تعمیر کی وجہ سے خاص شہرت کی حامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جہانگیر بادشاہ نے اپنے ہرن منس راج کے مرنے کے بعد ایک یادگارمینار تعمیر کروایا تاکہ اُس کے پالتو اور عزیز ہرن کی یاد ہمیشہ قائم رہے اورتاریخ میں اس ہرن کو ایک خاص مقام حاصل ہو جائے۔
 بادشاہ بڑے بادشاہ ہوتے ہیں ان کی رعایا کو روٹی ملے نہ ملے یہ مرنے والوں کے مقابر بڑے شوق اور پیار سے بناتے ہیں۔چاہے مرنے والا انسان ہو یا جانور۔
یہ مینار ایک چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ اس مینار کی بلندی تقریبا سو فٹ ہے ۔ جبکہ اس کے سامنے ایک جھیل بنائی گئی ہے۔جس کے بالکل درمیان میں ایک بارہ دری بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کےچاروں طرف ہاتھیوں کے پانی پینے کی جگہ،انسانوں کے نہانے کی جگہ اور;محافظوں کے ٹھہرنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔
میں اس مینار کے سامنے بنی ہوئی جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس جھیل کو کئی لمحوں دیکھتا رہا ، یوں لگا جیسےبادشاہ جہانگیر
شکار کی غرض سے آیا ہوا ہے اس کے ساتھ ہزراروں افراد کا لشکر ہے ، ہاتھی اور گھوڑےجھیل سے پانی پی رہے ہیں، سینکڑوں کنیزیں بارہ دری کے راستے میں کھڑی بادشاہ اور اس کے ساتھیوں پر پھول برسا رہی ہیں ۔
 پنجاب کے حکمران نے بادشاہ کی حفاظت اور آرام وسکون کے لئے خصوصی انتظامات کررکھے ہیں۔
بادشاہ اپنے محبوب ہرن کی قبر پر کھڑا ہے۔ جنگل کے جانور اور پرندے چھپ گئے ہیں ۔ ان کے لئے تو یہ جلال قہر سے کم نہیں کل جب بادشاہ شکار پر نکلے گا توپتہ نہیں کتنے بے بس پرندوں اور جانوروں کی جان چلی جائے گی ۔
لیکن جو بھی ہے یہ مینار مغلوں کی عظمت کی نشانی ہے۔ سیاحت کی آمدن کا ذریعہ اور ہم جیسوں کی تفریح گاہ ہے جو اپنے بچوں کو یہاں لا کر اپنے ماضی کے جاہ جلال سے آگہی فراہم کرتےہیں۔ لیکن یہاں آکر بچے اپنے بڑوں سے سوال ضرور کرتے ہیں۔ یہ جگہ اتنی گندی کیوں ہے؟ اس کے کچھ حصے بند کیوں ہیں اس کی مرمت کیوں نہیں ہوتی۔ یہ جگہ ٹھیکیداروں کےحوالے کیوں کی گئی ہے، اس عمارت اور اس کے درختوں پر لوگوں نے اپنے نام لکھ کر کیا

ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس عمارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کہاں جاتی ہے؟ کیاکوئی پوچھنے والا ہے یا نہیں۔





















مرقع زریں اردو خوش نویسی کی ایک نادر اور معیاری کتاب

اردو خوش نویسی کا ایک تابندہ باب


http://www.flipsnack.com/986A759A9F7/fdkf49mn

Friday, October 4, 2013

ڈولفنDolphin aiایک مچھلی ا، waris Iqbal

نیلے پانیوں کا ذکر اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں بسنے والی مچھلیوں کا ذکر نہ کیا جائے اورمچھلیوں کا ذکر اُس وقت   تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اُس مچھلی کا ذکر نہ کیا جائے جسے ڈولفن کہا جاتا ہے۔ اِ س مچھلی کو انسانوں کو دیکھنے کا اتناشوق ہے کہ  اکثر  ساحل پر آجاتی ہے۔  اس کی اسی عادت کی وجہ سے اس مچھلی کو انسان دوست مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری بہت سی کہانیوں میں ڈولفن کا ذکر ملتا ہے۔
 اگرچہ ڈولفن کا تعلق  وہیل کی قسم سے ہے جو سمندر میں رہتی ہے لیکن یہ مچھلی  دریاؤں  میں بھی رہتی ہے ۔دریائے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفن مچھلی کو اندھی ڈولفن کہا جاتا ہے۔ ۱۹۹۸ء میں ہونے والی ایک  تحقیق کے مطابق انہیں ۲ مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیاہے۔  اندھی ڈولفن کی ایک اہم قسم پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے
سمندری ڈولفن کی ۴۰ کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر یہ ۴ فٹ لمبی اور ۴۰کلو گرام تک ہو سکتی ہے۔
ڈولفن اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر رہتی ہیں۔ ایک گروہ میں ایک ہزار تک ڈولفن ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ مختلف آوازیں نکال کر رابطہ رکھتی ہیں۔  یہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتی ہیں اگر ان میں سے کوئی بیمار یا زخمی مچھلی ہو تو یہ اس کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور اُسے آکسیجن حاصل کرنے کے لئے سمندر سے اوپر تک لر کر آتی ہیں۔  مئی ۲۰۰۵ میں آسڑیلیا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ  ڈولفن اپنے بچوں کی باقاعدہ تربیت کرتی ہے اور اس کے لئے وہ  نرم و نازک پودوں کا استعمال کرتی ہے۔  اس دوران وہ آوازیں بھی سکھاتی ہے۔
ڈولفن کھیل کود میں خوش رہتی ہیں اور اپنی دم کے گرد چکر لگاتے نہیں تھکتی ۔
 اس خوبصورت مخلوق کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے جنوبی ایشیاء کے دریاؤں میں بڑھنے والی آلودگی اس کے نابینا ہونے کی اصل وجہ ہے۔ اس کےدریاؤں میں  رہنے والی ڈولفن اکثر نہروں میں چلی جاتی ہو کسی چھوٹی نہر میں  پھنس کر مر جاتی ہے۔  انسانوں کو دیکھنے کے شوق میں انسانوں کا شکار بن جاتی ہے۔ یا پھر ساحل پر پھیلے کوڑا کرکٹ  میں پھنس کر یاکھا کر مر جاتی ہیں۔  سمندروں میں چلنے والے بحری جہازوں سے نکلنے ولا تیل اور گندگی بھی ان کی موت کی وجہ بنتا ہے۔