http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Tuesday, December 11, 2012

موبائل فون ایک طالب علم کا دوست یا دشمن


موبائل فون ایک طالب علم کا دوست یا دشمن
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر کسی بزم میں اس کا اعلان کیا جائے تو  یقیناً ۔   اہل ِ ادراک   سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم عقل ودانش کے
زرخیز   جزیروں کا رخ کرتے ہیں  تو  یہ سوال اٹھتا ہے کہ  دوست کو ن ہوتا ہے ؟ جواب ملتا ہے، وہ جو  ضرورت کے وقت کام آئے۔ اچھا  تو     دشمن کو ن ہوتا ہے؟ وہ جو  وقت دیکھ کر نقصان پہنچائے۔     پھر دماغ  کی گہرائیوں سےیہ صداآتی ہے کہ  جو بیچارہ خود ایک سم کا محتاج ہو  وہ دشمن کیسے ہو سکتا ہے۔
جب فکر کی گہرائیوں تک مزید رسائی حاصل کی تو ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ  موبائل فون طالب علم کا دوست ہے نہ کہ دشمن۔ کیوں  ؟ اس لئے کہ ہم  طالبِ علم اسے نہیں کہتے جو کتابوں کے بوجھ میں لد ا ہانپ رہا  ہو، لیکن کتاب  اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی ۔ ہم طالبِ علم اسے کہتے ہیں جو علم کی طلب میں  نکلتا ہے، علم حاصل کرتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ جب وہ پڑھتا ہے محنت اور حلال طریقے سے کمائی کرنے والا اللہ کادوست ہے تو وہ محنت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ جب وہ پڑھتاہے،‘‘ میری بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ  دیتا۔’’ تو وہ قانون کا پابند بن جاتا ہے۔   مختصر یہ کہ  طالبِ علم سے ہماری  مراد طالبِ علم سے ہےکسی  بے علم کتابی کیڑے سے نہیں ۔ تو پھر طے ہوا کہ اِس طالبِ علم کے لئے موبائل فون بحیثیت ایک ذریعہ علم کبھی بھی دشمن نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو  ایک مونس دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔
آئیے!  اب  ہم  دنیائے علم پر بھی  اک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔ آج دنیا میں ٹیکنالو جی سے مربوط تعلیم(  آئی سی ٹی) کا دور ہے۔ ماہرینِ تعلیم میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اسکولوں میں بہت بڑے آئی سی ٹی کے ڈھانچے یعنی کمپیوٹرز ، اور بے پناہ سوفٹ وئیرز کی بجائے موبائل فون کاا ستعمال کر کے ہم اسکولوں کا بجٹ کم کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سکاٹ لینڈ کی مثال موجود ہے۔
ایک اسکول کے آئی سی ٹی مینیجر کا کہنا ہے کہ   جب موبائل فون طلبا کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے تو پھر اس پر پابندی بے معنی ہے۔

.” http://olliebray.typepad.com/olliebraycom/2009/11/mobile-phones-in-schools-friend-or-foe-times-educational-supplement-magazine-article.html

اگر ہم حقائق کی طرف دیکھیں تو ہم  حیران رہ جاتے ہیں  کہ پاکستان میں  موبائل فون کی تعداد ۱یک سو اکتیس ملین تک پہنچ گئی ہے۔
Published in The Express Tribune, July 28th, 2011
 توجو ایجاد استعمالِ عام ہے اور جسے تعلیم کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے،  وہ دشمن کیسے ہو سکتی ہے۔ اسے دشمن کہنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے
 لاؤڈ اسپیکر ، ریل گاڑی اورٹیلی ویژن کو دشمن کہا، کیونکہ یہ لوگ محض تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہیں۔ روشن پہلو ان کی نظر چندھیا دیتے ہیں۔
خطرو ں کے  اس دور میں موبائل فون اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایک ہرکارے کی طرح اس کے پیاروں تک  اطلاع پہنچانے کے کام آتا ہو۔
الفاظ کی قید آڑے آتی ہے ورنہ بے شمار پہلو ہیں جن کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون طالبِ علم کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔

Sunday, December 2, 2012

اردو تدریس میں سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟

Thursday, September 20, 2012

Teaching Urdu in BSS آئیے ایک دوسرے کاآئینہ بن جائیے۔: ، وارث اقبال ، کاوش ، Waris Iqbal تدریسِ اردو میں...

Teaching Urdu in BSS آئیے ایک دوسرے کاآئینہ بن جائیے۔: ، وارث اقبال ، کاوش ، Waris Iqbal تدریسِ اردو میں...: تدریسِ اردو میں سوالات کے طریقے اور تقاضے۔    کسی بھی زبان کی طرح اردو کی تدریس میں بھی  سوال جواب کو بہت اہمیت حاص...

، وارث اقبال ، کاوش ، Waris Iqbal تدریسِ اردو میں سوالات کے طریقے اور تقاضےMethods of Teaching English questions and requirements



تدریسِ اردو میں سوالات کے طریقے اور تقاضے۔
  کسی بھی زبان کی طرح اردو کی تدریس میں بھی  سوال جواب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ باہمی روابط کے لئے سوال جواب ایک مؤثر سرگرمی ہے۔  سکھانے والے سوال جواب کو ایک اہم  تدریسی  حکمتِ عملی کی حیثیت دیتے ہیں۔ مؤثر سوال جواب  تدریسی عمل کو سنوارتے ہیں اور غیر مؤثر سوال جواب  تدریسی عمل میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں ۔  ایک سروے کے مطابق ایک معلم یا معلمہ   ایک دن میں تین سو سے چار سو تک  سولات پوچھتا ہے۔ تاہم  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب سوالات معیاری ہی ہوں گے۔  ’’ تحقیق  سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  بہت سے  معلم یا معلمین  بہت زیادہ سوالات  پوچھنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں ۔ بہت زیادہ  جامد اور محدودو سوچ کے حامل سوالات۔ ‘‘ (Robert Fisher: Teaching Children to Learn (1995
 سوالات تحریری ہوں یا زبانی ، ہوتے سوالات ہی ہیں اور  انہیں ایک ہی طرح کی اہمیت حاصل ہے۔  اس لئیے یہاں سوالات سے مراد سوالات ہیں ، تحریری یا زبانی۔
معیاری سوالات

 سوالات کی اقسام

 ہم کن سولات کو معیاری کہہ سکتے ہیں۔ Fisher نے اس سوال کا بہت خوبصورت جواب دیا ہے۔
’’ ایک اچھا سوال وہ ہے جو دماغ میں کھلبلی مچا دے ۔ معیاری سوال سوچ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں اور  فہم کو جلابخشتے ہیں۔‘‘
معیاری سوالات  کے جوابات   جی ہاں ؍ جی نہیں سے بالا ہوتے ہیں۔

سوالات کی اقسام کے حوالے سے  ماہرین ِتعلیم نے بہت کچھ کہا ہے اور اقسام کا تعین مختلف حوالوں سے کیا ہے۔  سوالات کی اقسام کے تعین کے لئیے انگریزی میںTaxonomies کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاَ  Paul’s taxonomy جو کہ روایتی  ٹیکسانومی ہے کےمطابق سوالات کے ذریعے معلومات  اخذ کروائی جاتی ہیں۔ گویا دی جانے والی معلومات کی جانچ کی جاتی ہے۔ جبکہ Bloom’s taxonomy چھ اقسام کے لحاظ سے سوالات کا تعین کرتی ہے۔ جن کا مقصد بچوں کے سوچنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور سوچنے کی صلاحیتوں کی جانچ کرنا ہے۔بعد میں اس  ٹیکسانومی میں بہت سی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یو ںRevised Taxonomies بھی وجود میں آ گئیں۔

  ہم جماعت میں پوچھے جانے والے سوالات کو  بنیادی طور پردو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں  ۔ 
Oپیش کش پر مشتمل سوالات(Presentational Questions) محدود سوچ کے حامل سوالات
 ان سوالات کا مقصد بچوں کے سابقہ علم یا  سمجھ کی جانچ کرنا  ہوتا ہے۔ یہ سوالات  اس ٹھوس علم یا اس مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے جوابات ایک ہی ہوتے ہیں۔  چاہئے وہ دس بچوں سے پوچھے جائیں ۔ عا م طور پر معلم یا معلمہ کو  ان سوالات کے جوابات پہلے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات  یاتو درست ہوتے ہیں یا ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن یہ بچوں کے سوچنے کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں  روایتی طریقہ ٔ امتحان میں اسی طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کے جوابات بچوں کی یاد کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہوتے ہیں۔
Oغور و فکر کے اظہارپر مبنی سوالات(Reflective Questions) وسعت کی حامل سوچ کے حامل سوالات
 ان سولات کا تعلق بچوں کے سوچنے اور پرکھنے کی صلاحیت پر ہے۔  اس طرح کے سوالات کے جوابات میں مواد کو اہمیت دی جاتی ہے نہ کہ طریقۂ اظہار یعنی زبان کو۔ ان سولات میں برجستگی ہوتی ہےاور ان کے جوابات میں تنوع(Variety)ہوتاہے۔ ضروری نہیں کہ ایک بچے کا جواب وہی ہو جو معلم کا ہو یا دیگر بچوں کا ہو۔   ان  کے جوابات ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں ۔
 O سوالات کے مقاصد( سوال کیوں پوچھے جاتے ہیں۔)
·         بچوں کے سابقہ معلومات کا اندازہ کرنے کے لئے
·         اس امر کا اندازہ کرنے کے لئے بچے  پڑھا گیا مواد کس حد تک یاد رکھ پائے ہیں۔
·         زبان پر دسترس کا اندازہ لگانے کے لئیے۔
·         بچے کا نقطہ نظر جاننے کے لئے
·         بچوں کو بولنے یا لکھنے کی ترغیب دینے کے لئیے۔
·         یہ جاننے کے لئیے کہ بچے مواد کو اپنی زندگی میں کس طرح استعمال میں لا سکتے ہیں۔
نوٹ: اگرچہ سولات  وسیع سوچ کے حامل ہوتے ہیں یا  محدودسوچ کے حامل ، لیکن ہم کسی قسم کے سولات کو غلط یا درست نہیں کہہ سکتے۔ ہاں بہتر ، معیاری یا غیر معیاری کہہ سکتے ہیں۔
Oسوالات پوچھتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

·         ہر کسی کو  سوچنے کا ایک جیسا وقت دیا جانا چاہئے۔
·         سوال پوچھنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے اور پھر بچے سے کہئے کہ وہ جواب دے۔
·         بچوں کو عادت ہونی چاہئیے کہ جب معلمہ سوال پو چھے تو وہ ہاتھ کھڑا کریں اور جس بچے سے کہا جائے وہی جواب دے۔
 Nکسی بچے کے  غلط جواب کو غلط کہنے یا ڈانٹنے کی بجائے درست جواب کی نشاندہی کرنی چاہئیے ، کسی اور بچے سے پوچھنا چاہئیے یا پھر خود درست جواب بتانا چاہئیے۔ غلط جوابات پر معلم کا ردِ عمل بہت حساس معاملہ ہے جو بچے کو ہمیشہ کے لئے جواب دینے سے روک بھی سکتا ہے یا جواب دینے کا شائق بھی بناسکتا ہے۔ اس حوالے سےدرجِ ذیل جملے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
1.       آپ ابھی سوچ رہے ہیں۔
2.       اگر یہ جواب ہے تو سوال ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3.       لیکن مجھے پتا ہے کہ آپ کو سوال کا جواب آتا ہے۔ کیا  اس کا جواب یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4.       لگتا  ہےآج کا سبق آپ کو اچھا نہیں لگا۔
·         بات کو جاری رکھنے یاتسلسل  قائم رکھنے والے سوالات پوچھنے چاہیں۔ مثلا کیوں؟  کیا آپ اس  سے متفق ہیں؟ کیاآپ مزید کچھ بتا سکتے ہیں۔
·         کوشش  کی جانی  چائیے کہ  سوالات کے مختلف وقفوں میں مختلف بچوں کو  جواب دینے کا موقع ملے۔
·          ایسے بچے جو جواب نہیں دیتے ان سے آسان سوال پوچھے جانے چاہئیں تاکہ  وہ سوال دینے کے لئیے تیار ہوں۔
·         جوابات پر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔
·         ہمیشہ بچے کے ردِ عمل کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ سوال کی زبان بھی بدلی جا سکتی ہے۔
·         کسی منفی ردِ عمل کااظہار نہیں کیا جانا چاہئے ۔
·         نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئیے سوال پوچھنے سے پہلے بچوں سے  کہنا چاہئیے کہ وہ بورڈ کی طرف دیکھیں۔
·         اس امر کو یقینی بنایا جانا  چاہئے  کہ بچے سوال سمجھ سکیں۔
·         زبانی پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات مختصر ہونے چاہئیں۔
·          تحریری طور پر پوچھے جانے والے سوالات مختصر(معروضی) اور تفصیلی ہونے چاہئیے ۔
·         سوال اور جواب  اور اگلے سوال  کے درمیان  سوچنے کا وقت دینا چاہئے۔
M          غیر ضروری  اور ذاتی نوعیت کی معلومات کے حامل سوالات پوچھنے سے اجتناب  کیا جانا چاہئے۔

درجِ ذیل الفاظ کا استعمال کم کیجئے۔
درجِ ذیل الفاظ کا استعمال زیادہ کیجئے۔


کون،کب،کہاں، کیا
کیسے, کس طرح،کیوں، فرض کیجئے، واضح کیجئے، وجہ بتائیے

 ?خاص بات: بچوں کو سوالات ترتیب دینے، سولات پوچھنے اورسوالات لکھنے کا موقع دیا جانا چاہئیے اس مقصد کے لئے روزانہ کے سبق میں ایسی منصوبہ بندی کی جانی چاہئیے جس کے تحت بچوں کو سوال پوچھنے کا موقع ملے۔ بچوں کی تربیت کرنی چاہئیے کہ وہ سوالات کی اقسام کے مطابق سوال کریں۔
 مختصر یہ کہ  سوالات چاہے بچے پوچھیں یا معلم خود ہر دو صورتوں میں درجِ بالا اصولوں اور قواعد و ضوابط کا خیال رکھناچاہئیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہوگی جو ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔ ایسے سوالات سے اجتناب کیجئے جن کے نتیجے میں آپ کو یا  بچے کو  شرمندگی اٹھانا پڑے۔   سوال بناتے ہوئے یا پوچھتے ہوئے ہمیشہ  خود سے کہیئے ،’’  یہ میرے سبق کا بہت ہی سنجیدہ حصہ ہے۔‘‘.
تدریسِ اردو کے نئے زاوئیے برائے اردو اساتذہ                                                                        
کاوش

منفیت اور مایوسی سے بچنے کے طریقے

منفیت اور مایوسی سے بچنے کے طریقے 


·       منفی سوچ جب بھی  آپ کے دماغ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو آپ خود سے یہ سوال کرنا شروع کر دیں ۔
§       میں نے اس سے کیا سیکھا؟
§       میں اس صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لئے کیا کیا  کرسکتا ؍ سکتی ہوں۔
§        آئندہ مجھے اس صورت حال سے بچنے کے لئے کیا کرنا  ہوگا اور کیا حکمتِ عملی اپنانا ہوگی؟
·       صبح اُٹھ کر آئینہ دیکھئے  ،مسکرائیے اور خود سے کہئے ، ’’ صبح بخیر،    خوش ہو جاؤ آج کا دن بہت اچھا گزرے گا۔‘‘
·       اپنا معمول بنا لیں کہ ہر روز کم ازکم  تین لوگوں  کی تعریف ضرور کریں۔ اور اگر یہ عمل گھر سے شروع ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔
·       جب آپ لوگوں کی تعریف کریں تو اُن کی آنکھوں کی طرف ضرور دیکھئے آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کی تعریف سن کراُن  کے جوش میں اضافہ ہوا ہے جوآپ کے اردگرد ایک صحت مند ماحول قائم کرنے میں مدد دے گا۔
·       ایسے لوگوں سے دور رہئے جو  یا تومنفی سوچتے ہیں ۔ یا  اظہار ہی نہیں کرتے یا پھر منفی اظہار کرتے ہیں ۔
·       ایسے لوگوں کو دوست بنائیے جو اظہار کرتے ہیں اور  معاملات کو عام لوگوں سے مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔
·       ایسے کاموں کے لئے وقت نکالئیے جو آپ کو سکوں دیتے ہوں ۔  یہ کام کون سے ہیں یہ آپ  خودجانتے ہیں۔ عبادت،  پسندیدہ موضوع پر کتاب کی پڑھائی، ہلکی پھلکی خوب صورت موسیقی۔
·       دکھی شاعری ، گیتوں، موسیقی  اوردکھی موضوعات کے حامل ڈراموں سے خود کو دور رکھئیے کیونکہ یہ ایک ایسامیٹھا زہر ہے جو   اُمید کو موت کی آغوش سُلا دیتا  ہے۔
·       دوست بنائیے جن سے آپ اپنے خیالات  کاتبادلہ کر سکیں۔
·       اپنے پیشہ  کی ضرورت کے مطابق  باقاعدگی سے تھوڑا تھوڑا مطالعہ کیجئے۔ یہ مطالعہ آپ کے اندر اعتمادہی کا مؤجب نہیں ہوگا بلکہ دوسرے بھی آپ کی رائے کو اہمیت  دیں گے ۔
·       یاد رکھئے !  آپ کا سراہاجانا ایک ایسا حصار ہے جس کے اندر مایوسی داخل نہیں ہوسکتی۔

Friday, September 14, 2012

Urdu Kidz Cartoon: تعارف

Urdu Kidz Cartoon: تعارف: معزز قارئین ، آداب و تسلیمات۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ دوست احباب کے ایک حلقے میں اس موضوع پر بحث ہو رہی تھی کہ بچوں کو ٹی۔وی / انٹرنیٹ سے ...

Wednesday, August 29, 2012

Change, Urdu kawish, Urdu Teaching , Waris, کیاا ردو زبان میں کچھ تبدیلی اب وقت کی ضرورت نہیں؟


اگر ہم قوموں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہٹ دھرمی، جدت اور تخلیق سے انکار اور خود پسندی  تقریبا ہر قوم کا کسی نہ کسی دور میں وطیرہ رہا ہے۔ جن قوموں نے تبدیلی کو قبول کر لیا وہ  مادی اور روحانی لحا ط سے ایک  قوم بنی رہیں اور دیگر قوموں کے سامنے بھی سینا تانے کھڑی رہیں مثال ہے چین اور مثال ہے ایران ، انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور  بہت سے ملک۔
جب مارٹن لوتھر نے بائبل کے ترجمہ کی بات کی تھی تو لوگوں نے اسے کافر اور مسلمانوں کا ایجنٹ کہا تھا اور پھر وقت نے دکھایا  کہ عیسائی قوموں نے وہ سب کچھ کیا جو مارٹن لوتھر نے کہا تھا۔
میں نے اتنی لمبی تمہید اس لئے ترتیب دی ہے کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں اُس پر غور کیا جائے نہ کہ یہ کہہ کر رد کردیاجائے کہ ہمارے بڑے چونکہ اس طرح کرتے تھے ہم بھی ویسے ہی کریں گے۔
بات بہت چھوٹی سی ہے لیکن ہے بہت اہم۔ وہ یہ کہ میری یہ سوچ ہے کہ جو لفظ ہماری زبان میں دوسری زبانوں سے آئے اور انہیں ہم نے اپنی زبان کا حصہ بنا لیا وہ اُسی طرح ادا کئے جائیں جس طرح اُس زبان میں ادا کئیے جاتے ہیں جہاں سے وہ لفظ لئے گئے۔ مثلاجِہَت  کو ہم جَہَت نہیں کہہ سکتے اسی طرح جَوہَر کو جوہر نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے کہ عربی لوگ ان لفظوں کی اسی طرح ادائیگی کرتے  ہیں۔ اسی طرح فارسی ، ہندی اور دیگر زبانوں کے لفظ  وغیرہ تو پھر ہم انگریزی کے الفاظ کو اُسی طرح  ادا کیوں نہیں کرتے جس طرح  انگریزی میں انہیں ادا کیا جاتا ہے۔ مثلا   ہاکی  کو ہوکی  اور ڈاکٹر کو  ڈوکٹر بکس کو بوکس کیوں نہیں کہتے  اگر ہم کالم کو  ستون کی بجائےکالم  ہی  کہتے ہیں اور رپورٹ کو  وقوعہ یا وقائع  کی بجائے رپورٹ ہی کہتے ہیں تو پھر   انگریزی زبان کے قواعد کے مطابق اپنی زبان کے قواعد میں کیوں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہمیں یہ تبدیلی لانی چاہئیے یا نہیں۔
دوسرا مسئلہ ہے،    ’’ انارکلی ڈسکو چلی‘‘  کیا ہم اپنے کلاسیکل ادب کو  بچوں کے لئیے ان کی عمر کے مطابق آسان کر کے پیش نہیں کر سکتے۔ اگر  مراۃ العروس بچوں نے آسان زبان میں جماعت پنجم میں پڑھی ہو تو کیا  او لیول میں وہ زیادہ آسانی سے اور دلچسپی سے نہیں پڑھ سکیں گے۔ تو میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ  کیاہمیں کلاسیکل ادب  بچوں کی عمر کے مطابق آسان کر کے پیش نہیں کرنا چاہئیے۔،

Monday, August 27, 2012

Learning Styles in Urdu, Waris Iqbal Kawish, Urdu teaching, Teaching Urdu,

Learning Styles in Urdu, Waris Iqbal Kawish, Urdu teaching, Teaching Urdu,


ہر انسان مختلف طریقوں  سے سیکھتا ہے  لیکن ایک طریقہ ایسا  ہوتا جو اس کے سیکھنے کے طریقوں پر حاوی ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں زیادہ تر اسی طریقے سے سیکھ رہا ہوتا ہے ۔  یوں تو بہت سے لرننگ اسٹائل یعنی سیکھنے کے طریقے ہیں لیکن یہاں صرف تین دئیے گئے  ہیں۔
آئیے ! اپنا  سیکھنے کا طریقہ ؍ انداز جانئے۔
درجِ ذیل کوئز حل کر کے آپ اس قابل ہوں گے کہ آپ جان سکیں کہ آپ  کے سیکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
اس کوئز کو حل کرنے کا طریقہ:
ہر بیان  کے سامنے دی گئی ترجیحات  میں سے اپنی پہلی ترجیح کے سامنے درست کا نشان لگائیے۔
 دوسری  ترجیح پر دائرہ بنائیے اور تیسری کو خط کشید کیجئے۔ ترجیحات کا تعین کرنے سے پہلے درجِ ذیل   ہدایات پڑھ لیجئے۔
ترجیح اول ۔                                یہ ایک  ایسا بیان ہے جو میرے بارے میں  ہے۔              
ترجیح دوم۔                یہ ایک ایسا بیان ہے جو کافی حد تک  میرے بارے میں ہے۔
ترجیح سوم ۔                یہ ایک ایسا بیان ہے  جو میرے بارے میں بالکل نہیں۔
مثال :        آ پ کی سہولت کے لئیے میں نے ایک  بیان کی ترجیحات کا تعین کیا ہے جو میرے مطابق ہے۔ دیکھئے نمبر ۲۹
سیکھنے کے انداز سے متعلق بیانات
نمبر
ترجیح اول
ترجیح دوم
ترجیح سوم
 میں مسائل کے  بارے میں اس وقت سوچتی ہوں جب میں کام کر رہی ہوتی ہوں یا چل رہی ہوتی ہوں۔
1



میں رنگوں کو بہتر طور پر سمجھتی ہوں۔
2



 بیٹھ کر دوسروں کو سننا تو مجھے زہر لگتا ہے۔  یعنی مجھے لیکچر سننا اچھا نہیں لگتا۔
3



مجھے موسیقیت کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔
4



 مجھے زبانی ہدایات حاصل کرنا اور زبانی وضاحت کرنا اچھا لگتا ہے۔
5



میں  الفاظ  کی ادائیگی کرنے سے پہلے اپنے دماغ میں حروف کی تصوویر بناتا ہوں۔ یعنی میں جب ہجے کرتاہوں تو میرے دماغ میں الفاظ یا حروف کی تصویر یا شبیہہ بن جاتی ہیں۔
6



میں لوگوں کے انداز سے سمجھ جاتی ہوں کہ اصل میں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
7



مجھے کپڑے پہننے کا  ڈھنگ آتا ہے
8



میں  الفاظ  کی ادائیگی کے لئےآوازیں سوچتی ہوں۔      لفظ گیلا               تو              گ  ی  ل  ا 
9



مجھے پڑھائی سے متعلق کام( Task Reading)  پسند ہیں۔
10



میں بحث مباحثہ میں اس لئیے شریک ہوتی ہوں کہ مجھے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرنا اچھالگتا ہے۔
11



مجھے ایک جگہ بیٹھنا اچھا نہیں لگتا۔
12



 میں بیان یا گفتگو سے بہت جلد اپنی ضرورت کے مطابق مفہوم یا مطالب اخذ کر لیتی ہوں۔
13



میں جب بولتی ہوں تو میں   )gesture جسمانی حرکات یا اشارات)کا استعمال کرتی ہوں۔
14



 میرے دماغ کی کھڑکیاں ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔
15



 جب میں پڑھتی ہوں تو میرے دماغ میں ایک تصویر سی بنتی چلی جاتی ہے۔
16



میں  عمل کے ذریعے بہتر سیکھتی ہوں۔
17



میں جب کوئی کام کررہی ہوتی ہوں تو اُس وقت موسیقی سننا پسند کرتی ہوں۔
18



مجھے جب کوئی گھر کا پتہ بتاتا ہے تو میں اس سے کہتی ہوں کہ مجھے نقشہ بنا کر دیں۔
19



میں ہدایات پر مکمل عمل کرنے کی بجائے خو داپنے لئے طریقہ کار وضح کرتی ہوں۔
20



میں معلومات کو سمجھنے کے لئے اکثر اونچی آواز میں پڑھتی ہوں۔
21



مجھے  خود کو  کئی طریقوں سے ترغیب دینا پڑتی ہے۔
22



مجھے پڑھنے ،لکھنے یا سننےکی بجائے  اشکال، تصاویر،یا نقشوں کی مدد سے سیکھنے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔
23



 میں یاد رکھنے کے لئے اپنے دماغ میں یا کاغذ پر خاص قسم کا ربط بناتی ہوں مثلاَ چونکہ اس میں’  تھا  ‘ہے اس لئیے یہ جملہ ماضی کا ہے۔ یا چونکہ محمد بن قاسم اور غزنوی کے درمیان اتنے سال ہیں اس لئیے محمود غزنوی اتنے سال میں ہندوستان پر حملہ آوار ہوا تھا۔   چونکہ احمد اپنے چچا کے بیٹے شہزاد کی شادی سے دو سال بعد پیدا ہوا تھا اور شہزاد کی شادی ۲۰۰۲ میں ہوئی تھی اس لئیے شہزاد کی پیدائش کا سال  ۲۰۰۴ ہے۔
24



مجھے ایسی سرگرمیاں پسند ہیں جن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا ہو۔
25



مجھے پڑھنے (Reading )کا کوئی خاص شوق نہیں۔
26



مجھے آمنے سامنےملاقات سے زیادہ ٹیلی فون پر بات کرنا اچھا لگتا ہے۔
27



میں کوئی بھی لباس خریدتے ہوئے یہ دیکھتی ہوں کہ یہ کتنا آرام دہ ہے نہ کہ فیشن کو
28



مجھےٹیلی فون سے زیادہ آمنے سامنےملاقات کرنا اچھا لگتا ہے۔
29



 مجھے اس وقت پریشانی ہوتی ہے جب کوئی مجھے ادھوری بات بتاتا ہے۔
30



. آئیے اب  دئیے گئے طریقے کے مطابق نتائج دیکھئے۔
درجِ بالا تر جیحات میں سے اول تر جیح کے نمبروں کو درجِ ذیل نمبروں پردرست کا نشان لگائیے۔  مثلاََ میں نے 29 نمبر کی ترجیح اول کو ٹک کیاہے تو میں درجِ ذیل خانوں میں سے ۲۹نمبر تلاش کر کے اس پردرست کا نشان لگاؤں گا۔
ہر نمبر کو ایک نمبر دیجئے اور کل نمبروں میں سے نمبر نکالئیے۔ کل نمبر دس ہیں۔
اسی طرح دوسری ترجیح کے نمبروں کے گرد دائرہ لگائیے اور تیسرے کو خط کشید کیجئے۔
اگر آپ کی  ترجیح اول درجِ ذیل نمبر وں میں ہے تو آپ دیکھ کر سیکھتے ہیں: Visual learner
۲
۶
۸
۱۰
۱۵
۱۶
۱۹
۲۳
۲۹
۳۰
کل نمبر
۱
۱
۱
۱
۱
۱
۱
۱
۱
۱

                 
کل نمبر      ۱۰
کل نمبر

اگر آپ کی  ترجیح اول درجِ ذیل نمبر وں میں ہے تو آپ سن کر بول کر اور پڑھ کر  سیکھتے ہیں: Auditory learner
۴
۵
۷
۹
۱۱
۱۳
۲۱
۲۴
۲۶
۲۷
کل نمبر
1
1
1
1
1
1
1
1
1
1

                 
کل نمبر      ۱۰
کل نمبر

اگر آپ کی  ترجیح اول درجِ ذیل نمبر وں میں ہے تو آپ حرکت کے ذریعے یا عمل کر کے سیکھتے ہیں: Kinaesthetic learner
۱
۳
۱۲
۱۴
۱۷
۱۸
۲۰
۲۲
۲۵
۲۸
کل نمبر
1
1
1
1
1
1
1
1
1
1


 اگر آپ  کی پہلی ترجیح کا جواب  درمیان میں ہے تو آپ ملے جلے انداز سے سیکھتے ہیں۔ mixed learning style

               
آپ چاہیں تو آپ اپنی دوسری اور تیسری ترجیح بھی جان سکتے ہیں۔ مگر دوسری ترجیح کے لئے خط کشیدہ کیجئے۔ اور تیسری  کے لئے  نمبر  کو ٹک کر لیجئے۔


متن ۱
دیکھ کر  سیکھنے والے                                                                                                                                      Visual Learners
بصری طریقے سے سیکھنے والے زیادہ تر دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ انہیں فلیش کارڈز ، چارٹس، ڈائیاگرامز،اور تصاویر کافی پسند ہوتی ہیں۔ یہ وسائل انہیں جلد اور  پختگی     سے سیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے سیکھنے کے عمل کو متحرک کرنے کے لئے سکھانے والے کو تحریر ، ورک شیٹس، وغیرہ کا زیادہ استعمال کرنا چاہئیے۔  کوشش کی جانی چاہئیے کہ انہیں تصویری اور رنگین مواد دیا جائے۔ اس طرح کے مواد  سے انہیں مواد کی تفصیل کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح یہ  اپنے کام کو بہتر اور منظم طریقے سے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ عام طور پر چہرے یاد رکھنے کی زیادہ استظاعت رکھتے ہیں لیکن نام بھول جاتے ہیں۔  چونکہ یہ جسمانی حرکات و سکنات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اس لئیے چہرے کےاتار چڑھاؤ اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز تک سے جلد مطلب اخذ کر لتے ہیں۔ یہ  زبانی دی جانے والی ہدایات کی نسبت لکھی ہوئی ہدایات یا   رول پلے کے اندز میں دی جانے والی ہدایات  کو جلد سمجھتے ہیں اور جلد عمل کرتے ہیں۔ یہ لوگ سننے والی لمبی سرگرمیوں سے جلد اکتا جاتے ہیں اور موضوع کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
متن ۲
سن کر سیکھنے والے                                                                                                                                       Auditory learners      .
سیکھنے والوں کی یہ قسم سماعت کے ذریعے یعنی سن کر زیادہ سیکھتے ہیں۔ یہ تلفظ    pronunciation  سے متعلق  کام خوش دلی سے کرتے ہیں۔ یہ جماعت میں بولنے اور سوالات کے جوابات دینے میں پہل اختیار کرتے ہیں۔  یہ بیان یا لیکچر سے جلد سیکھتے ہیں اور بتائی گئی معلومات کو بہتر طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ  سمجھنے کے لئے بلند خوانی کرتے ہیں۔ یہ زبانی ہدایات اور وضاحت کو تر جیع دیتے ہیں جبکہ  انہیں تحریری  ہدایات سمجھنےمیں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں جب کچھ یاد کرنا ہوتا ہے تو آوازوں اورلوگوں کے بولنے پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ  حقائق کو جلد یاد کر لیتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی کہ یہ لوگ کہانیاں اور لطیفے سنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ گروپس میں کام کرنا، معلومات کا تبادلہ کرنا اور برین اسٹورمنگ  میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ یہ پڑھنے  readingپر زیادہ اور نوٹس بنانے پر کم توجہ دیتے ہیں۔







متن۳
عمل کے ذریعے سیکھنے والے                                                                                                                         Kinesthetic Learner
عمل کے ذریعے سیکھنے والے حرکت کر کے ، عمل کر کے چھو کر زیادہ بہتر طور پر سیکھتے ہیں۔ انہیں خود ہاتھ کام کرنا پسند ہوتا ہے۔ اور سیکھنے کے لئیے بھی وہ خود عملی تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ  لکھی گئی ہدایات، یا ڈائیاگرام کے ذریعے سیکھنے کی بجائے خو د جستجو کر کے سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت میں کھوج اور جستجو کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں میں یہ دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں۔ یہ ڈرائینگ کرنا پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سننے والی سرگرمیوں میں جب یہ لوگ اکتاجاتے ہیں تو یہ چھوٹی چھوٹی ڈرائینگ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔یہ رول پلے اور عملی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔کیونکہ اس میں یہ عمل کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے ہیں۔ بیان یا لیکچر اور لمبی باتوں میں یہ اکثر اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر انہیں لمبے عرصے تک ایک ہی جگہ بیٹھنا پڑے تو یہ بے چینی کا اظہار شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل کو  دہرا کر یاد کرتے ہیں۔ جب یہ کوئی مشق کر رہے ہوتے ہیں تو اکثر مسائل کے حل کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
متن۴
ملا جلا طریقہ                                                                                                                                                               Mixed style
سیکھنے کے ماحول میں ایسے لوگ بھی ہوتے  ہیں جن میں ہر ماحول اور صورتِ حال میں ڈھل جانے کی خصوصیت ہوتی ہے۔۔یہ چارٹس اور تصاویر کے ذریعے بھی سیکھتے ہیں اور حرکت وعمل کے ذریعے بھی۔ یہ یاد رکھنے کے لئیے دیکھنے کی صلاحیت کا استعمال بھی کرتے ہیں اور جسمانی حرکات و سکنات سے بھی مطالب اخذ کرتے ہیں۔ یہ سننے کی سرگرمیوں میں اتنی ہی دلچسپی لیتے ہیں جتنی کہ بولنے کی سرگرمیوں میں۔ یہ  تحریری ہدایات بھیی پسند کرتے ہیں۔ جہاں یہ اپنی بات دوسروں تک بہتر پیرائے میں بیان کر سکتے ہیں وہاں یہ د وسروں کا نقطہ ٔ نظر بھی اطمینان سے سمجھتے ہیں۔ یہ دسروں میں گھل مل جاتے ہیں اور رول پلے جیسی سرگرمیوں کو پسند کرتے ہیں۔