تدریسِ
اردو میں سوالات کے طریقے اور تقاضے۔
|
کسی بھی زبان کی طرح اردو کی تدریس میں بھی سوال جواب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ باہمی
روابط کے لئے سوال جواب ایک مؤثر سرگرمی ہے۔
سکھانے والے سوال جواب کو ایک اہم
تدریسی حکمتِ عملی کی حیثیت دیتے
ہیں۔ مؤثر سوال جواب تدریسی عمل کو
سنوارتے ہیں اور غیر مؤثر سوال جواب
تدریسی عمل میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں ۔
ایک سروے کے مطابق ایک معلم یا معلمہ
ایک دن میں تین سو سے چار سو تک
سولات پوچھتا ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا
جا سکتا کہ سب سوالات معیاری ہی ہوں گے۔ ’’ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے
معلم یا معلمین بہت زیادہ
سوالات پوچھنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں ۔
بہت زیادہ جامد اور محدودو سوچ کے حامل سوالات۔
‘‘ (Robert Fisher:
Teaching Children to Learn (1995
سوالات تحریری ہوں یا زبانی ،
ہوتے سوالات ہی ہیں اور انہیں ایک ہی طرح
کی اہمیت حاصل ہے۔ اس لئیے یہاں سوالات سے
مراد سوالات ہیں ، تحریری یا زبانی۔
معیاری سوالات
|
|
سوالات کی اقسام
|
ہم کن سولات کو معیاری کہہ سکتے ہیں۔ Fisher نے اس سوال
کا بہت خوبصورت جواب دیا ہے۔
’’ ایک اچھا
سوال وہ ہے جو دماغ میں کھلبلی مچا دے ۔ معیاری سوال سوچ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں
اور فہم کو جلابخشتے ہیں۔‘‘
معیاری
سوالات کے جوابات جی ہاں ؍ جی نہیں سے بالا ہوتے ہیں۔
|
|
سوالات کی اقسام
کے حوالے سے ماہرین ِتعلیم نے بہت کچھ
کہا ہے اور اقسام کا تعین مختلف حوالوں سے کیا ہے۔ سوالات کی اقسام کے تعین کے لئیے انگریزی میںTaxonomies کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاَ Paul’s
taxonomy جو کہ
روایتی ٹیکسانومی ہے کےمطابق سوالات کے
ذریعے معلومات اخذ کروائی جاتی ہیں۔
گویا دی جانے والی معلومات کی جانچ کی جاتی ہے۔ جبکہ Bloom’s taxonomy چھ اقسام کے لحاظ سے سوالات کا تعین کرتی ہے۔ جن کا مقصد بچوں کے
سوچنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور سوچنے کی صلاحیتوں کی جانچ کرنا ہے۔بعد میں
اس ٹیکسانومی میں بہت سی تبدیلیاں لائی
گئیں۔ یو ںRevised Taxonomies بھی وجود میں آ گئیں۔
|
ہم جماعت میں پوچھے جانے والے سوالات کو بنیادی طور پردو اقسام میں تقسیم کر سکتے
ہیں ۔
|
Oپیش
کش پر مشتمل سوالات(Presentational Questions)
محدود سوچ کے حامل سوالات
ان سوالات کا مقصد بچوں کے سابقہ علم یا سمجھ کی جانچ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سوالات اس ٹھوس علم یا اس مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے
جوابات ایک ہی ہوتے ہیں۔ چاہئے وہ دس بچوں
سے پوچھے جائیں ۔ عا م طور پر معلم یا معلمہ کو
ان سوالات کے جوابات پہلے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات یاتو درست ہوتے ہیں یا ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن
یہ بچوں کے سوچنے کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی طریقہ ٔ امتحان میں اسی طرح کے سوالات
پوچھے جاتے ہیں جن کے جوابات بچوں کی یاد کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہوتے ہیں۔
Oغور
و فکر کے اظہارپر مبنی سوالات(Reflective Questions) وسعت کی حامل
سوچ کے حامل سوالات
ان سولات کا تعلق بچوں کے سوچنے اور پرکھنے کی
صلاحیت پر ہے۔ اس طرح کے سوالات کے جوابات
میں مواد کو اہمیت دی جاتی ہے نہ کہ طریقۂ اظہار یعنی زبان کو۔ ان سولات میں برجستگی
ہوتی ہےاور ان کے جوابات میں تنوع(Variety)ہوتاہے۔
ضروری نہیں کہ ایک بچے کا جواب وہی ہو جو معلم کا ہو یا دیگر بچوں کا ہو۔ ان کے
جوابات ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں ۔
O سوالات
کے مقاصد( سوال کیوں پوچھے جاتے ہیں۔)
·
بچوں کے سابقہ معلومات کا اندازہ کرنے کے لئے
·
اس امر کا اندازہ کرنے کے لئے بچے پڑھا گیا مواد کس حد تک یاد رکھ پائے ہیں۔
·
زبان پر دسترس کا اندازہ لگانے کے لئیے۔
|
·
بچے کا نقطہ نظر جاننے کے لئے
·
بچوں کو بولنے یا لکھنے کی ترغیب دینے کے لئیے۔
·
یہ جاننے کے لئیے کہ بچے مواد کو اپنی زندگی میں کس طرح
استعمال میں لا سکتے ہیں۔
|
نوٹ: اگرچہ سولات وسیع سوچ کے حامل ہوتے ہیں یا محدودسوچ کے حامل ، لیکن ہم کسی قسم کے سولات
کو غلط یا درست نہیں کہہ سکتے۔ ہاں بہتر ، معیاری یا غیر معیاری کہہ سکتے ہیں۔
Oسوالات پوچھتے ہوئے کن باتوں کا
خیال رکھنا ضروری ہے۔
|
·
ہر کسی کو سوچنے کا
ایک جیسا وقت دیا جانا چاہئے۔
·
سوال پوچھنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے اور پھر بچے سے کہئے
کہ وہ جواب دے۔
·
بچوں کو عادت ہونی چاہئیے کہ جب معلمہ سوال پو چھے تو وہ
ہاتھ کھڑا کریں اور جس بچے سے کہا جائے وہی جواب دے۔
Nکسی بچے کے غلط جواب کو غلط کہنے یا ڈانٹنے کی بجائے
درست جواب کی نشاندہی کرنی چاہئیے ، کسی اور بچے سے پوچھنا چاہئیے یا پھر خود
درست جواب بتانا چاہئیے۔ غلط جوابات پر معلم کا ردِ عمل بہت حساس معاملہ ہے جو
بچے کو ہمیشہ کے لئے جواب دینے سے روک بھی سکتا ہے یا جواب دینے کا شائق بھی بناسکتا
ہے۔ اس حوالے سےدرجِ ذیل جملے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
1. آپ ابھی سوچ رہے ہیں۔
2. اگر یہ جواب ہے تو سوال ہونا
چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3. لیکن مجھے پتا ہے کہ آپ کو سوال کا
جواب آتا ہے۔ کیا اس کا جواب یہ نہیں ہو
سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4. لگتا ہےآج کا سبق آپ کو اچھا نہیں لگا۔
·
بات کو جاری رکھنے یاتسلسل
قائم رکھنے والے سوالات پوچھنے چاہیں۔ مثلا کیوں؟ کیا آپ اس
سے متفق ہیں؟ کیاآپ مزید کچھ بتا سکتے ہیں۔
·
کوشش کی جانی چائیے کہ
سوالات کے مختلف وقفوں میں مختلف بچوں کو جواب دینے کا موقع ملے۔
·
ایسے بچے جو جواب نہیں
دیتے ان سے آسان سوال پوچھے جانے چاہئیں تاکہ
وہ سوال دینے کے لئیے تیار ہوں۔
·
جوابات پر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔
·
ہمیشہ بچے کے ردِ عمل کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ سوال کی زبان
بھی بدلی جا سکتی ہے۔
·
کسی منفی ردِ عمل کااظہار نہیں کیا جانا چاہئے ۔
·
نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئیے سوال پوچھنے سے پہلے بچوں سے کہنا چاہئیے کہ وہ بورڈ کی طرف دیکھیں۔
·
اس امر کو یقینی بنایا جانا
چاہئے کہ بچے سوال سمجھ سکیں۔
·
زبانی پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات مختصر ہونے چاہئیں۔
·
تحریری طور پر پوچھے
جانے والے سوالات مختصر(معروضی) اور تفصیلی ہونے چاہئیے ۔
·
سوال اور جواب اور
اگلے سوال کے درمیان سوچنے کا وقت دینا چاہئے۔
M غیر
ضروری اور ذاتی نوعیت کی معلومات کے
حامل سوالات پوچھنے سے اجتناب کیا جانا
چاہئے۔
|
|||
درجِ ذیل
الفاظ کا استعمال کم کیجئے۔
|
درجِ ذیل
الفاظ کا استعمال زیادہ کیجئے۔
|
||
کون،کب،کہاں، کیا
|
کیسے, کس طرح،کیوں،
فرض کیجئے، واضح کیجئے، وجہ
بتائیے
|
||
?خاص بات: بچوں کو سوالات ترتیب دینے،
سولات پوچھنے اورسوالات لکھنے کا موقع دیا جانا چاہئیے اس مقصد کے لئے روزانہ کے
سبق میں ایسی منصوبہ بندی کی جانی چاہئیے جس کے تحت بچوں کو سوال پوچھنے کا موقع
ملے۔ بچوں کی تربیت کرنی چاہئیے کہ وہ سوالات کی اقسام کے مطابق سوال کریں۔
مختصر یہ کہ
سوالات چاہے بچے پوچھیں یا معلم خود ہر دو صورتوں میں درجِ بالا اصولوں اور
قواعد و ضوابط کا خیال رکھناچاہئیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہوگی جو ساتھ ساتھ چلتی رہے
گی۔ ایسے سوالات سے اجتناب کیجئے جن کے نتیجے میں آپ کو یا بچے کو
شرمندگی اٹھانا پڑے۔ سوال بناتے
ہوئے یا پوچھتے ہوئے ہمیشہ خود سے کہیئے
،’’ یہ میرے سبق کا بہت ہی سنجیدہ حصہ
ہے۔‘‘.
تدریسِ اردو کے نئے زاوئیے برائے اردو
اساتذہ
|
کاوش
|
No comments:
Post a Comment