موبائل فون ایک طالب علم کا دوست یا دشمن
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر کسی بزم میں اس کا اعلان کیا
جائے تو یقیناً ۔ اہل ِ ادراک
سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم عقل ودانش کے
زرخیز جزیروں کا
رخ کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوست کو ن ہوتا ہے ؟ جواب ملتا ہے، وہ جو ضرورت کے وقت کام آئے۔ اچھا تو
دشمن کو ن ہوتا ہے؟ وہ جو وقت دیکھ
کر نقصان پہنچائے۔ پھر دماغ کی گہرائیوں سےیہ صداآتی ہے کہ جو بیچارہ خود ایک سم کا محتاج ہو وہ دشمن کیسے ہو سکتا ہے۔
جب فکر کی گہرائیوں تک مزید رسائی حاصل کی تو ہم اس نتیجے
تک پہنچے کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ
موبائل فون طالب علم کا دوست ہے نہ کہ دشمن۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ہم طالبِ علم اسے نہیں کہتے جو کتابوں کے بوجھ میں
لد ا ہانپ رہا ہو، لیکن کتاب اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی ۔ ہم طالبِ علم
اسے کہتے ہیں جو علم کی طلب میں نکلتا ہے،
علم حاصل کرتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ جب وہ پڑھتا ہے محنت اور حلال طریقے
سے کمائی کرنے والا اللہ کادوست ہے تو وہ محنت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ جب وہ
پڑھتاہے،‘‘ میری بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔’’ تو وہ قانون کا پابند بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ
طالبِ علم سے ہماری مراد طالبِ علم
سے ہےکسی بے علم کتابی کیڑے سے نہیں ۔ تو
پھر طے ہوا کہ اِس طالبِ علم کے لئے موبائل فون بحیثیت ایک ذریعہ علم کبھی بھی
دشمن نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو ایک مونس
دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔
آئیے! اب ہم
دنیائے علم پر بھی اک طائرانہ نظر
ڈال لیتے ہیں۔ آج دنیا میں ٹیکنالو جی سے مربوط تعلیم( آئی سی ٹی) کا دور ہے۔ ماہرینِ تعلیم میں یہ
رجحان پایا جاتا ہے کہ اسکولوں میں بہت بڑے آئی سی ٹی کے ڈھانچے یعنی کمپیوٹرز ،
اور بے پناہ سوفٹ وئیرز کی بجائے موبائل فون کاا ستعمال کر کے ہم اسکولوں کا بجٹ
کم کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سکاٹ لینڈ کی مثال موجود ہے۔
ایک اسکول کے آئی سی ٹی مینیجر کا کہنا ہے کہ جب موبائل فون طلبا کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے
تو پھر اس پر پابندی بے معنی ہے۔
.” http://olliebray.typepad.com/olliebraycom/2009/11/mobile-phones-in-schools-friend-or-foe-times-educational-supplement-magazine-article.html
اگر ہم حقائق کی طرف دیکھیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ پاکستان میں موبائل فون کی تعداد ۱یک سو اکتیس ملین تک پہنچ
گئی ہے۔
Published in The Express Tribune, July 28th, 2011
توجو
ایجاد استعمالِ عام ہے اور جسے تعلیم کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ دشمن کیسے ہو سکتی ہے۔ اسے دشمن کہنے والے
وہی لوگ ہیں جنہوں نے
لاؤڈ اسپیکر ، ریل
گاڑی اورٹیلی ویژن کو
دشمن کہا، کیونکہ یہ لوگ محض تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہیں۔ روشن پہلو ان کی نظر
چندھیا دیتے ہیں۔
خطرو ں کے اس
دور میں موبائل فون اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایک ہرکارے کی طرح اس کے
پیاروں تک اطلاع پہنچانے کے کام آتا ہو۔
الفاظ کی قید آڑے آتی ہے ورنہ بے شمار پہلو ہیں جن کی
بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون طالبِ علم کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔
No comments:
Post a Comment