http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Saturday, December 31, 2016

Emotional Intelligence


Emotional Intelligence
















تحریری مہارات کے لئے طریقہ ہائے تدریس اور مختلف نکتہ ہائے نظر



تحریری مہارات کے لئے طریقہ ہائے تدریس اور مختلف نکتہ ہائے نظر
جماعت میں تحریری سرگرمیاں کروانے کے کئی طریقے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ کوئی ایسا طریقہ نہیں جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ درست ہے یا یہ سب سے بہتر ہے۔  اس کے تعین کا انحصار اسکول،طلبا ، نصاب یا اساتذہ پر ہے۔ تاہم  کسی صورتِ حال میں کسی طریقے کو مؤثر کہا جا سکتا ہے اور کسی میں کسی دوسرے کو۔ اس باب میں دو بنیادی رائج الوقت طریقوں کو بیان کیا گیا ہے تاکہ اپنی ضرورت کے مطابق طریقہ استعمال میں لایاجا سکے۔
تخلیق پر مبنی  نقطہ ٔ نظر (product Approach)
اس طریقہ کے تحت  بچوں کی یاد کرنے، نمونے کا مواد نقل کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس طریقہ  کے درجِ ذیل چار اہم مراحل ہیں۔
اول
دوم
 نمونے ایک متن پڑھا جاتا ہے یا پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات کو خط کشید کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر موضوع خطوط نویسی ہے۔ تو بچوں کی توجہ خط کی ہیت، اور اس کی زبان پر دی جاتی ہے۔ اور اگر کہانی نویسی ہے تو زیادہ کوشش کہانی کو دل چسپ بنانے میں کی جاتی ہے۔
عام طور پر خط کشیدہ خصوصیات یا نکات پر زور دیا جاتا ہے جو عام طور پر متن سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر خطوط نویسی ہے تو بچے خط کی زبان کونقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا ’’ آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے۔‘‘
سوم
چہارم
خیالات کی رسمی ترتیب پر زور دیا ہے۔ جو لوگ اس طریقہ کے حامی ہیں ان کے  خیال میں ترتیب  خیالات سے کہیں ضروری ہے۔
 آخر میں بچوں کو ایک موضوع دیا جاتاہے جس پر وہ  ہدایات کے مطابق لکھتے ہیں۔ وہ زبان، ہیت اور دی گئی ہدایات پر توجہ دیتے ہیں۔


تدریجی طریقہ پر مبنی نقطۂ نظر(A process approach)
اس نقطۂ نظر کے حامی سکالرز کا خیال ہے کہ  بچوں کو ایک ٹھوس اور مؤثر طریقہ ٔ کار کے تحت زیادہ آسانی سے اور دیر پا انداز میں سکھایا جا سکتا ہے۔   اس طریقہ میں  جماعت میں کئی سرگرمیاں کی جاتی ہیں جس سے زبان کو ترویج ملتی ہے۔ برین اسٹورمنگ کی جاتی ہے بچے  جوڑیوں میں اور گروپس میں  بات چیت کرتے ہیں،
لکھتے ہیں، سیکھتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں۔ضرورت کے مطابق طریقہ استعمال میں لایاجا سکے۔
تدریجی طریقہ  کے  اہم  مراحل ہیں
اول
دوم
 برین اسٹورمنگ کے ذریعے خیالات کو متحرک کیا جاتا ہے۔ تبادلۂ خیال کیاجاتاہے۔ وجوہات و اسباب بیان کئیے جاتے ہیں۔ معلم یا معلمہ اس سارے عمل میں پس منظر میں رہتے ہوئے ایک سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اور بچوں کی زبان کے حوالے سے معاونت کرتے ہیں۔ اس مرحلے  میں دیگر کئی ایسی  سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد بچوں کو  موضوع کی طرف لانا ہوتا ہے۔ انہیں Pre- writing Strategies بھی کہا جاتا ہے۔
 بچے خیالات نوٹ کرتے ہیں، آپس میں تبادلۂ خیال کے زریعے اپنے نوٹس کا جائزہ لیتے ہیں اور تبدیلی کرتے ہیں۔
سوم
چہارم
بچے مائینڈ میپ جیسے طریقوں کے ذریعے خیالات کو منظم کرتے ہیں۔ انہیں مختلف موضوعات پر سوچنے کام کرنے اور خیالات کے تبادلے کے مواقع ملتے ہیں۔
 بچے اپنا پہلا مکمل مسودہ  ڈرافٹ لکھتے ہیں۔  یہ انفرادی، جوڑیوں میں یا کسی اور طریقے سے ہو سکتا ہے۔
پنجم
ششم
 بچوں کے ڈرافٹس کا تبادلہ کیا جاتا ہے تاکہ بچے ایک دوسرے کے ڈرافٹس کا مطالعہ کر لیں۔ اس طرح انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی قاری ہوتا ہپے۔ اور ان کے ڈرافٹ میں بہتری کی گنجائش ہے۔
 اس موقع پر بچوں کے ڈرافٹس انہیں واپس مل جاتے ہیں۔ بچے اپنے ڈرافٹ کی املا، جملوں اور دیگر غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔
ہفتم
ہشتم
 اس مرحلے میں بچے حتمی ڈرافٹ بناتے ہیں۔
 اس مرحلے میں بچے اپنا حتمی ڈرافٹ کا دوسرے بچوں کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔

دونوں طریقوں کا موازنہ  

تخلیق پر مبنی طریقہ
تدریجی طریقہ
·        نمونے کے متن کی نقالی
·        متن موازنہ کا ذریعہ
·        خیالات کی ترتیب کی خیالات سے زیادہ اہمیت
·        خیالات ہی مرکز
·        ایک مسودہ
·        ایک سے زیادہ مسودات
·        اہم نکات کی نشاندہی، محدود خیا لات
·        غیر محدود خیالات، مقاصد کی اہمیت، قاری کے مطابق
·        انفرادی
·        اجتماعی؍ انفرادی
·        حتمی نتیجہ پر زور
·        تخلیقی  و تدریجی طریقہ اور مراحل پر زور

کون سا  نقطۂ نظر اختیار کیاجائے؟
 
 

 جیسا کہ آغاز میں کہا گیا ہے کہ  کون سا طریقہ اختیار کیاجائے ؟اس کے تعین کا انحصار اسکول،طلبا ، نصاب یا اساتذہ پر ہے۔ تاہم  کسی صورتِ حال میں کسی طریقے کو مؤثر کہا جا سکتا ہے اور کسی میں کسی دوسرے کو۔ اس باب میں دو بنیادی رائج الوقت طریقوں کو بیان کیا گیا ہے تاکہ اپنی ضرورت کے مطابق طریقہ استعمال میں لایاجا سکے۔
 اس حوالے سےتحریری کی اقسام کو دیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ مثلا  رسمی خط  کے خدوخال ہیت کے اعتبار سے بہت محدود ہیں اس لئیے زیادہ تر ان جیسے کاموں کے لئیے تخلیق پر مبنی طریقہ کو ہی ترجیع دی جاتی ہے۔تا کہ بچے ، ہیت، خیالات کی تنظیم وغیرہ پر ہی توجہ دیں۔
اسی طرح  مختلف اقسام کے مضامین اور تخلیقی لکھائی جن میں بچوں کے خیالات کو ترجیع دی جاتی ہے کے لئیے تدریجی طریقہ درست ہے۔
.دونوں طریقے اصل میں ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ نہ  یہ ضروری ہے کہ ان میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ مثلا کے طور پر تخلیقی طریقہ میں اگر معلم یا معلمہ چاہتی ہیں کے برین اسٹورمنگ یا گروہی کام سے بچوں کو سکھانے میں مدد ملے گی تو یہ حکمتِ عملیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔  گروہی کام  بچوں کے خیالات کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں بچوں کو غور وفکر آتا ہے اور جب بچے ایک اور دو یا تین مسوادات لکھتے ہیں تو انہیں اپنے ہی کام کو چیک کرنے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان میں اچھی عادات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئیے ضرورت کے مطا بق تدریجی طریقہ کے اہم خدوخال تحریری عمل کا حصہ بننے چاہئیں۔
Resources

Tuesday, December 27, 2016

Teaching Urdu : سفر نامہ پریوں کی تلاش کی دوسری قسط

Teaching Urdu : سفر نامہ پریوں کی تلاش کی دوسری قسط: ہمارا پہلا عارضی پڑاؤپنڈی بھٹیاں جا کر پڑا۔ جونہی ہم گاڑی سے باہر آئے تو ہمیں موسم ِ گرما کی محبتوں کا اندازہ ہوگیا۔   کیا خوبصورت ا...

سفر نامہ پریوں کی تلاش کی دوسری قسط

ہمارا پہلا عارضی پڑاؤپنڈی بھٹیاں جا کر پڑا۔ جونہی ہم گاڑی سے باہر آئے تو ہمیں موسم ِ گرما کی محبتوں کا اندازہ ہوگیا۔  کیا خوبصورت اور خوب سیرت گرمی تھی ۔ کسی ظالم حسینہ کی طرح ہر کسی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہی تھی۔انٹر چینج کا جائے طعام وقیام دھوپ نے  جھلسا کر رکھ دیا تھا۔  ہر چہرہ مرجھایا اور کملایا ہوا  تھا۔ ہم نے باہر بیٹھنے کی بجائے ریسٹوران کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اندر بہت سکون  تھا،اے سی نے موسم بھی خوشگوار بنائے رکھا تھا اورصرف ہم ہی ہم تھے۔ اس لئے ویٹرز نے اپنی ساری توانائیاں ہماری خدمت میں صرف کر دیں۔ ہم نے اپنی اپنی مرضی کی ضروریات بتائیں اور اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔           میرے پیچھے درواز ہ تھا اور سامنے ریستوران کا استقبالیہ ڈیسک۔ جہاں دو لڑکے چابکدستی سے ہمارے لئے اشیائے خو ر و نوش تیار کر رہے تھے۔ انہیں تکتے رہنا مجھے کچھ مناسب نہ لگا۔ لہذا میں کرسی کو پیچھے موڑ کر دروازے کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جہاں سے انٹرچینج کی پارکنگ پٹرول پمپ اور اس کے پیچھے موٹر وے کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں بیٹھے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے باہر کا ہر منظر سورج کی حشر سامانی سے محفوظ ہے لیکن اندر کی کہانی اور تھی اور باہر کی اور۔               میری نظریں سڑک پر چلنے والے ٹریفک پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ اپنے نہاں خانوں میں سے کچھ تلاش کرنے میں مگن تھا۔ وہ کچھ اوراق کو رد کرتے ہوئے اورکچھ کو قبول کرتے ہوئے اپنے فعال حصے پر منتقل کر رہا تھا۔
کچھ ہی لمحوں میں یہ عمل تیز ہوگیا۔ اب تصویروں سے سجی تاریخ کے اوراق سیلابی پانی میں پتوں کی طرح بہے چلے آرہے تھے۔ داستانیں، کہانیاں، ہیروز، دشمن، شہزادے شہزادیا ں اور لہلہاتے کھیتوں کو روندتے،پاگلوں کی طرح بھاگے پھرتے بیرونی افواج کے لشکر درلشکر۔
 ہائے میری دھرتی!  ہمیشہ بیرونی لشکروں کے لئے کھیل کا میدان بنی رہی۔ اگر اْن کے راستہ میں کوئی بچہ آ گیاتو زندگی ہار گیا، اگر کوئی عورت آ گئی تو حیوانیت کا شکار ہو گئی اور اگر کوئی مرد تو درندگی کی نئی تاریخ رقم ہوگئی۔
 ایک نہیں دو نہیں، لشکروں کے لشکر اپنی اغراض کے لئے اس زمین کو روندتے رہے، لوٹتے ر ہے اور بنبھوڑتے رہے۔یہاں کے لوگ آئے دن بیرونی حکومتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے اپنے ہونے کا احسا س دلاتے رہتے۔ بیرونی حملہ آور خود تو چلے جاتے لیکن اپنے امیر کے نام پر ایک اور مصیبت یہاں چھوڑ جاتے اور پھر یہاں ایک اور ہی سلسلہ شروع ہو جاتا ،کبھی یہ علاقہ کسی کی امارت کا حصہ بن جاتااور کبھی کسی کی جاگیر۔ ہر فاتح اسے ناصرف لوٹتابلکہ وہاں سازشوں کا جال بھی پھیلا دیتا۔
سلطنتِ دہلی پر اکبرِ اعظم کی قیادت میں مغل اپنی حکومت کو مضبوط سے مضبوط  تربنانے میں جتے ہوئے تھے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان سرسبز اور زرخیز زمینوں کے مالک اور آئے دن کی لوٹ مار سے اْکتائے بھٹی، راجپوت اور جاٹ یہاں کی آزادی کے متوالے ساندل بھٹی کی قیادت میں سلطنتِ دہلی سے آزادی کا اعلان کر چکے تھے۔ یوں یہ علاقہ ساندل بار کے نام سے مشہور ہو چکا  تھا۔ یہ علاقہ موجودہ شیخوپورہ اور حافظ آباد سے لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ تک پھیلاہوا تھا۔                                     
  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اکبر جیسا حکمران ہو اور اس کا ایک علاقہ اْس کی حاکمیت تسلیم نہ کرے۔ اْس جیسے حکمرانوں کے ہاں تو آزادی کامطلب فقط بغاوت ہوتا ہے۔ اس نے تو اپنی آنکھ کے تارے، کلیجہ کی ٹھنڈک اور لختِ جگر جہانگیر تک کی بغاوت کی کتاب کا پہلا باب تک برداشت نہ کیا تھا اور اُسے کتاب ِ بغاوت سمیت کچل کر رکھ دیاتھا۔ وہ ظلِ سبحانی، اکبرِ اعظم بھٹیوں کی بغاوت کیسے برداشت کرتا۔ بس اپنی تما تر قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، رگیدا، کچلا اور پھر ختم۔                      قیدیوں کے ہجوم میں ساندل بھٹی کی بہو اور فرید بھٹی کی بیوی گود میں ایک چھوٹے سے بچے کو اْٹھائے اکبر کے دربار میں پیش کی گئی۔ اکبر اس بچہ کے خوبصورت چہرے پر موجود دو معصوم آنکھوں میں جھانک کر کانپ گیا۔ اپنے وقت کاذہین ترین اور مردم شناس حکمران اکبر اْس بچہ کی معصوم آنکھوں میں مستقبل کی ساری کہانی پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا۔ اگر بچہ کو ماردیا گیا تو اس علاقہ میں بسنے والے اطاعت گزار راجپوت، بھٹی اور جاٹ بھی مغلوں کی اطاعت چھوڑ دیں گے اور اگر اس بچہ کو چھوڑاگیا تو یہ بچہ بھٹیوں میں بغاوت کی بھٹی ہمیشہ تپائے رکھے گا، نہ خود چین لے گا نہ چین لینے دے گا۔ اس لئے اُس نے بھٹیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لئے کہ اکبر ان کاخیر خواہ ہے اس بچے کوزندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
یوں اپنے وقت کا چالاک ترین بادشاہ قدرت کے ہاتھوں مات کھاتے ہوئے دْلا بھٹی کو اپنے ساتھ محل میں لے آیا۔ حکم دیا کہ اس بچے کی اس طرح پرورش کی جائے کہ وہ اکبر کو اپنا باپ اور بھٹیوں کو سلطنت کا باغی سمجھتے ہوئے جوان ہو۔ یوں عبداللہ بھٹی عرف دْلا اکبر کے زیرِ سایہ محل میں اکبر کے بیٹے کے ساتھ پرورش پانے لگا۔ جو تعلیم اکبر کے بیٹے جہانگیر کو دی جا رہی تھی وہی دُلا بھٹی کو بھی مل رہی تھی جو آسائش اْ س کے اپنے بیٹے کو حاصل تھی وہی دْلاکو بھی حاصل تھی۔     اکبر جانتا تھا کہ راجپوت اور بھٹی کبھی بھی سر اٹھا سکتے ہیں اس لئے اْن کا مستقل بندوبست کرنے کے لئے شیخوپورہ کے قلعہ کی مضبوطی کی طرف دھیان دیاگیا، علاقہ میں لوگوں کو انعام و اکرام ومراتب سے نوازہ گیا۔ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان اور مغلیہ وفاداری کو یقینی بنانے کی شرط پر علاقہ کی زمینیں امرا اور جا گیر داروں میں بانٹ دی گئیں۔
 سالہا سال گذر گئے اور بھٹیوں کے دماغ سے بغاوتوں کے آثار اور خیالات بھی ماند پڑ گئے۔دْلا جب جوان ہوا تو اْ س کی خوبصورتی، جوانی اور جسم کی مضبوتی دیکھ کر لوگ اش اش کر اْٹھتے۔ علم کا میدان ہوتا تو دْلا ایسے دلائل دیتا کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتیں، تلوار چلاتا تو لوگ سکتے میں آجاتے اور نیزہ پھینکتا تو نشانہ دیکھ کر لوگ گنگ ہوجاتے۔
پھر وہ وقت بھی آ گیا جب دلا بھٹی پہلی دفعہ اپنے گاؤں گیا۔ قبیلہ کے لوگ اُسے دیکھ کر خود پر فخر کرنے لگے، بڑے بزرگ اْس میں اْس کے باپ دادا کو تلاش کرنے لگے، چنچل مٹیاریں اْسی کو اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھنے لگیں، بڑی بوڑھیاں دیکھتیں تو بے ساختہ  بین ڈالنے لگتیں،
 ”ہائے! ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹااپنے باپ پر گیا ہے شین جوان۔۔۔ کیسا اندھیر ہے سامنے ہوتے ہوئے بھی باپ کے قاتلوں کو نہیں پہچانتا۔“
کہا جاتا ہے کہ نشانہ بازی کرتے ہوئے ایک لڑکی کاگھڑا ٹوٹ گیا تو اْس نے طنز اًکہا،  
  ” اگر تمہیں اپنے نشانہ پر اتنا ہی مان ہے تو اپنا نشانہ اپنے باپ دادا کے قاتلوں پر کیوں نہیں آزماتے۔ اتنے بڑ ے سو رما ہو تو جا، جا کر اپنے باپ دادا کے قاتل کا سر کاٹ۔“                                                                                                                                                           یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ دْلے پر کس کا اثر ہوااْس لڑکی کے طنزکا یا کسی بوڑھی اماں کی ہمدردی کا یاپھر دْلے کی ماں کے سینے میں برسہا برس کی دبی انتقام کی آگ کا جو اْس نے اپنے بیٹے کے اندر یہ کہہ کرمنتقل کر دی۔   
تیرا ساندل دادا ماریا،  دتا بھورے وچ پا مغلاں    
                                                                                                                     پْٹھیاں کھلاں لاہ کے بھریاں نال ہوامغلاں
ترجمہ:  مغلوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں ڈال دی اور ہمارے عزیزوں کی لاشوں کی کھالیں اتار کر ان میں ہوا بھر دی۔ 
              ماں کی یہ ایک ہوک ہی غیرت مند دُلے کے لئے کافی تھی۔                            بہر حال وجہ جو بھی بنی عبداللہ بھٹی عرف دْلا نے اپنے باپ دادا کے راستے پر چلتے ہوئے اکبر کے خلاف
 علمِ بغاوت بلند کردیا۔
 دُلا بھٹی کے نام کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ عبدا للہ نام بگڑ کر دلا بن گیا، دوسری یہ کہ بھٹیوں نے اْسے بھٹیوں کا دولہا کہا جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر دْلا بن گیا۔
 بہر حال علاقے کے راجپوت اور جاٹ قبائل تو اس دن کے انتظار میں تھے جب انہیں کوئی بہادر رہنما ملے، فوراً دْلے کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔                  دْلا بھٹی اور اس کے ساتھی مغل امرا سے دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے، بے سہاراجوان بچیوں کی شادیاں کرواتے، جہاں کہیں کسی عورت پر ظلم زیادتی کی اطلاع پاتے وہیں پہنچ جاتے اور ظالم کی گردن مار کر مظلوم کی دادا رسی کرتے۔ یوں ایک باغی ابنِ باغی، ایک جنگجو اور آزادی کا متوالا اپنے عہد کی عوام الناس کا ہیرو بن گیا۔
 کہا جاتا ہے کہ اْ س نے پہلی اور آخری بار پنجاب میں  ’ لوک راج ‘  قائم کیا۔ پنجاب میں اْسے وہی حیثیت حاصل تھی جویورپ میں روبن ہوڈ کو حاصل تھی۔
 سلطنتِ دہلی کاباغی اور پنجاب کے ایک بڑے حصے کا مسیحا دْلا بھٹی مقامی لوگوں کے گیتوں اور ماؤں کی لوریوں میں چپکے سے سرایت کر گیا۔ اس کے نعرے اور جنگی گیت جنہیں
‘وار‘  کہا جاتا تھاپنجاب کی پکڈنڈیوں اور کھیتوں میں سنائی دینے لگے۔ شاعروں نے اس کے کارناموں کو شاعری کی زینت بنانا شروع کر دیا اور یہ گیت پنجاب کی گلی گلی میں گائے جانے لگے۔ علما اور صوفیا نے جن میں لاہور کے بزرگ صوفی مادھو لعل حسین شاہ خاص طور شامل تھے بھی دْلا بھٹی کی پذیرائی اور حمایت شروع کر دی۔                                    
 ایک طرف عظیم ہندوستان کا  عظیم مغل شہنشاہ اکبر۔۔۔۔۔اکبرِ اعظم اور دوسری طرف یہ چھوٹا سا باغی۔لیکن اس باغی نے تقریباً بیس سال تک اس عظیم شہنشاہ کو  ناکوں چنے چبوائے رکھے۔    پنجاب کے اس سپوت نے اکبر جیسے طاقتور بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ دہلی چھوڑ کر لاہور آبسے اور اس بغاوت کا قلع قمع کرے۔                           اکبر نے اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں اس باغی کا سر کچلنے میں جھونک دیں لیکن ناکام رہا۔


 بادشاہ لوگ جب ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی سازشیں کام آتی ہیں، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک جال بُنا جاتا ہے جس میں باغی پھنس جاتا ہے،  شرائط سے انکار پر اْس باغی کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔  یہی کچھ اس باغی کے ساتھ بھی ہوا۔ لاہور میں دہلی دروازے کے باہر  دُلا بھٹی کوپھانسی کی دے دی گئی۔ شاہ حسین نے دُلے ک        ی نماز جنازہ پڑھائی اور دلابھٹی کی موت پر کہا،
یا دلبر یا مر کر پیارا
دْلے دے لعل لباں دے لارے
سْولی پر چڑھ ،لے ہلارے
آن ملیسی دلبر یارا
یا دلبر یا سر کر پیارا

ترجمہ:  اے دلبر اور پیارے۔ تیرے سامنے دْلے کے لبوں کی سْرخی جلوہ دکھا رہی ہے۔وہ سْولی پر جھول گیا۔ یار خودبخود مل جائے گا۔
 بادشاہ اور اُس کے حواریوں نے دلا بھٹی کو لاہور کے اْس وقت کے ایک نامانوس اور شہر سے دوردراز علاقے کے ایک قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا۔                       شہر سے دور دفن کرنے کی وجہ بھی شاہ اور اس کے حواریوں کا یہی ڈر تھا کہ کہیں دلا بھٹی کی قبر اس سے زیادہ مضبوط نہ بن جائے۔  کہیں مرا ہوا دُلا زندہ دُلےسے بھی مضبوط بن کر نہ کھڑا ہو جائے اور کہیں مستقبل کی باغی تحریکیں دُلے کی قبر سے جذبہ ٔحریت نہ حاصل کرسکیں۔
وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ وقت کے بعد میانی صاحب کا قبرستان ایک مشہور قبرستان بن گیا۔ افسوس کہ دلا بھٹی کی شکستہ حال قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ برینڈ کی وجہ سے۔ امرا اپنی زندگی میں ہی قبرستانوں کے اس ’ ڈیفینس ‘  میں اپنے لئے دوگز زمین خریدلیتے۔ یوں یہ ایک وی آئی پی قبرستان بن گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
                  میں نے تاریخ میں کئی دفعہ دلا بھٹی کی داستان پڑھی تھی۔  مجھے وہ ہمیشہ ایک باغی ہی دکھائی دیا لیکن جب میں نے پنڈی بھٹیاں کے انٹر چینج کے اس ریستوران میں بیٹھ کر تاریخ کے اوراق سے گرد اْتاری تو مجھے دْلا بھٹی آزادی کاا یک متوالا دکھائی دیا۔ جس نے پہلی اور اب تک آخری دفعہ ایک منظم لوک راج  قائم کیا۔ جس نے ساندل بار کی زرخیز زمینوں اور محنتی لوگوں کو غلامی سے نجات دلوانے کے لئے جدوجہد کی اورپھر اپنے لہو سے اس خطے کی زمینوں کو سیراب کردیا۔
کہاجاتا ہے کہ لہو زمین کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ شاید اس علاقے کی زمینوں کی زرخیزی دُلے بھٹی اور اس کے ساتھیوں کے لہو ہی کی وجہ سے ہے۔
یہیں سے میرے عدو کا خمیر اُٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا تھا
خبر نہیں ہے میرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا ہے
(احمد جاوید)

میرے بیٹے نے میری توجہ  میز پر رکھے برگر کی طرف دلائی تو مجھے میز پر ایک پلیٹ میں ایک چھوٹے سے لشکر جیسے فرنچ فرائز، جری سپہ سالار نما برگر اور خلقِ خدا جیسی، سیاہ نصیبوں جلی پیپسی کی ایک بوتل دکھائی دی۔ میں نے فرنچ فرائز کے تین ٹکڑوں کا ایک نوالہ بنایا اور دانتوں کے سپرد کر دیا۔ جونہی میری زبان اور دانتوں نے فرنچ فرائز کا مزا چکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں کسی لشکر میں موجود ہوں اور دن بھر کی تھکن کے بعد کھانا کھا رہاہوں۔ لیکن ایک خوف نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ خوف اس امر کا نہیں تھاکہ آج کی جنگ میں میری جان جائے گی یا میں کسی اور معرکہ میں جان دینے کے لئے بچوں گا یا نہیں۔  خوف اس امر کا تھا کہ تاریخ لکھنے والا میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔  مجھے  دلابھٹی کے لشکر میں بٹھائے گا یا اکبرِ اعظم کے۔
______________________