http://teaching urdu.blogspot.com/ Urdu, waris, Urdu teaching, teaching urdu,Creativity,Urdu Teachers, Think, Language Urdu,Waris Iqbla, Urdu Blog for Urdu teachers,Urdu Teaching, Urdu Teaching Tips, Urdu with ICTاردو، اردو تدریس، وارث اقبال، پاکستان میں اردو تدریس، اردو . Teaching Urdu Language

Thursday, May 31, 2012

اردو تفہیم کی مشق کے لئے ابھی تک کوئی Interactive مواد موجود نہ تھا میں نے ایک کوشش کی ہے ۔ جس میں بچے کمپیوٹر پر جوڑیوں میں ایک عبارت پڑھیں گے اور اس کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیں گے۔  پہلی کوشش ہے  انشااللہ پسند آئے گی۔درجِ ذیل لنک کھولئے۔


http://www.authorstream.com/PresentLive/waiqbal-1433407-interective-reading
مقتدرہ قومی زبان کی شائع شدہ کتب
اردو کے حوالے سے یونیورسٹی مقالات
یہ ایک معیاری ڈکشنری اور لغت ہے جس کی توثیق مقتدرہ اردو نے کی ہے۔

ادبی تنقید و تحقیق کے حوالے سے ایک عمدہ کتاب
 


کلیاتِ ساغر صدیقی کے مطالعہ کے لئے درجِ ذیل لنک حاضر ہے۔
http://www.deedahwar.net/saghir/index_scalable.html

اردوئے معلیٰ غالب کے بارے میں ایک اہم کتاب ہے جو اب آپ درجِ ذیل لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://archive.org/stream/urduimualla01ghaluoft#page/n3/mode/2up


Tuesday, May 29, 2012

اردو کہانیوں ، کارٹون اور کامکس پر ایک بہت ہی اعلیٰ ویب سائیٹ
http://www.urdukidzcartoon.com/                         
ایک بہت اچھا لنک
http://www.k6art.com/tag/%D8%B3%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D8%AE%D9%84%D9%88%D9%82/?lang=ur
بچوں کے لئے عمدہ نظمیں جو تفہیم کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/forums/%D8%A8%DA%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D9%85%DB%8C%DA%BA.258/

Monday, May 21, 2012

اہم واقعات

آج مسز قصوری نے ایس جی تھری آفس کو اپنی آمد سے رونق بخشی۔

اردو ہے جس کا نام

اردو کا زوال اور ہمارا کردار
میرے موضوع سے یوں لگتا جیسے اردو زوال کا شکار ہے یا ہو گئی ہے۔  میرا ہر گز یہ مطلب نہیں۔ ہاں زوال کی نشانیاں ضرور پائی جاتی ہیں جو شدت سے نمایاں ہو رہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں۔ دور کیا جانا،  اپنے ارد گرد اپنے ماحول اور اپنے گھروں ، اسکولوں میں ہی جھانک لیجئے۔ اردو رفاقت سے محروم دکھائی دے گی۔  کتابوں کی دکانو ں یا کتب  میلوں پر چلے جائیے آپ کو اپنے بچے کے لئے اردو میں کوئی کتاب نہیں ملے گی۔  ہم بچوں کے اساتذہ سے کہتے ہیں اسے کوئی اردو کی کتاب تو دیجئے پڑھنے کے لئے اور وہ بیچارہ استاد سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس بچے کو مستنصر حسین تارڑ کا کوئی سفر نامہ دوں یا علامہ اقبال کی بچوں کی نظمیں  ۔کہیں بچہ کتاب کے مطابق نہیں ہوتا کہیں کتاب بچے کے مطابق نہیں ہوتی ۔ نتیجتاَ ا س بے چارے قسمت کے مارے معلم ِتدریسِ اردو کو یہ کہہ کر جان چھڑانا پڑتی ہے کہ میں کل اس کی ڈائیری میں لکھ دوں گا ؍ گی۔ وہ دن کبھی نہیں آتا اور اگر کسی نے اس معلم یا معلمہ سے پوچھ لیاکہ کوئی اردو ویب سائیٹ بتا دیجئے تو اس بے چارے بے چاری کی جان اس طرح نکل جاتی ہے جس طرح ہماری جان اس وقت نکلتی تھی جب کوئی بڑا ہم سے ۱۶ کا پہاڑا سنانے کو کہہ دیتا۔ کچھ بزرگ تو ایسے بھی تھے جو ڈیڑھ اور ڈھائی کا پہاڑا بھی سنتے تھے۔
یہاں میرا ایک سوال ہے کیا اب کوئی ڈیڑھ کا پہاڑا یاد کرتا ہے یا کوئی کسی بچے سے ڈھائی کا پہاڑا سنتا ہے۔ نہیں  نہ وہ بزرگ رہے نہ وہ ڈھائی کا پہاڑا رہا۔  خدا نہ کرے کہ آج سے کچھ سال بعد کہیں کوئی منچلا  یہی سب کچھ لکھ رہا ہو مگر ڈھائی کے پہاڑے کی جگہ اردو آجائے۔
ہمیں بحیثیت مدرسین ِ اردو اس امر کی سنجیدگی کو سمجھنا چاہئے اور ان وجوہات پر غور کرنا چاہئے جن کی بنا پر اردو آج اس نتیجے کو پہنچی ہے۔
 سادگی اور سلاست ہمیشہ سے ہی اردو ادب اور زبان کی خصوصیت رہی ہے۔ کیا آج یہ سادہ اور سلیس ہے۔ آپ کہیں گے ہاں ہے۔ میں کہوں گا نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ جو کتابیں بچوں کو پڑھائی جا رہی ہیں وہ آج سے سو سال پہلے لکھی گئیں  لیکن آج کی زبان تبدیل ہو گئی (بولنے کی زبان)  وہ الفاظ بدل گئے جو ان کتابوں میں موجود ہیں ،وہ اصطلاحات بدل گئیں جو ان کتابوں میں موجود ہیں اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جو الفاظ ہماری روز مرہ زبان میں استعمال نہیں ہوتے ہم بچوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ  اپنی تحریروں میں وہ الفاظ استعمال کریں۔  کیا ہم اپنے پرانے شاعروں اور ادیبوں کے کاموں کو آسان کر کے  نہ پیش کریں ۔ جب ہم بچے کو مشکل الفاظ سے بھرا، لتھڑا مضمون پڑھنے کے لئے دیتے ہیں  اور پھر اسے کہتے ہیں کہ اسے سلیس کرے۔ خدا کے لئے۔  ایک جماعت میں ایک بچہ اردو کی کتاب کے کتنے الفاظ کے معانی یاد کرے  اور وہ معانی جن کی اسے بھی سمجھ نہیں۔
ارود زبان کی دوسری بڑی خصوصیت یہ رہی ہے  کہ یہ زبان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں بھی لاتی رہی ۔ہے۔ گویا کہ وقت کے بہتے دھارے کے سنگ چلتی رہی ۔ یوں میر امن دھلوی سے ڈپٹی نذیر احمد تک بہ آسانی پہنچ گئی۔ لیکن جب اس کے مقابلے میں ددسری زبانیں آنے لگیں  تو یہ زبان  دفاعی  مورچوں میں چلی  گئی ۔  جب قومیں دفاعی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں تو وہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتیں ۔  یہ میں نہیں کہہ رہا تاریخ پڑھ لیجئے۔ صرف لاہور کی تاریخ ہی پڑھ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ  جب جب لاہور دفاع پہ گیا لٹتا رہا۔ اگر ہم دفاعی حیثیت اختیار کرنے والی قوم کے احساسات اور نفسیاتی کیفیات پرغور کر لیں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔
 اب حل کیا ہے ؟ پہلا حل تو یہ ہے کہ اردو زبان کو ہم آسان اور قابلِ فہم بنائیں۔
دوسرا حل یہ ہے کہ  زبان میں وہ تمام جدتیں اور رنگینیاں ہوں جو دوسری زبانو ں میں ہیں ۔ مثلاَ آپ کو  عشق کی کیفیات پر تو بے انتہا شاعری ملے گی لیکن بھورے رنگ پر نہیں ،  سبز رنگ پر نہیں، گھڑی کی ٹک ٹک پر نہیں۔ آپ کو  بچوں کی شاعری تو مل جائے گی لیکن بچوں کے لئے  شاعری نہیں۔  بچوں کو  کھیلنےکے لئے دنیا کی ہر زبان میں کمپیوٹر کھیلیں  ملیں گی، نہیں ملیں گی تو اردو میں نہیں ملیں گی۔ اسی طرح اینی میشنز آپ کو تامل تک میں مل جائے گی نہیں تو اردو میں نہیں اگر کچھ ہوں گی تو وہ ناقابلِ رسائی نہیں ہوں گی۔ مذہبی تفرقہ بازی  پر اتنے بلاگ ملیں گے کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایک بچہ ہفتہ دس دن ان بلاگز کا مطالعہ کر لے  بعید نہیں کہ وہ کچھ بھی کر لے  بے دین ہو جائے ، کسی جنگل کا باسی بن جائے، یا پھر خود کش حملہ آور۔
ہونا یہ چاہئے کہ روداری اور محبت کی متلاشی قوتیں میدان میں آئیں  اور کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس کی ضرورت ہو۔ آپ یقین کیجئے کہ مجھے اپنے بچے کے لئے چڑیا کے بارے میں معلومات چاہیں تھیں وہ مجھے اردو میں نہیں ملیں۔
 میدان خالی ہے ، اردو میں تحقیق و اختراع کا میدان خالی ہے۔ اس پر جدت کے پھول اُگا لیں ورنہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ خالی میدانوں میں یا آسیب بسا کرتے ہیں یا قبرستان بنا کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا کہ اردو کی موت سے اسے کچھ نقصان نہ ہوگا تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔ کیوں کہ جن قوموں کی زبانیں فوت ہوجاتی ہیں ۔ ان کی اساس ووراثت ختم ہو جاتی ہے  اور جن قوموں کی وراثت ختم ہو جاتی ہے ان قوموں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کی پہچان ختم ہوئی وہ قوم  گلی کے اس کتے کی مانند ہو جاتی ہے جس کی گردن میں کسی سے نسبت کا پٹہ نہیں ہوتا۔
 اب ذرا  دوسرے طریقے سے بھی سوچ لیجئےکیا قومیں برقعوں میں ترقی کرتی ہیں؟ اردو کو جس برقعے میں ہم نے قید کر رکھا ہے وہ اتارنا ہوگا ۔ اسے دوسری زبانوں اور قوموں سے ملوانا ہو گا، اسے نام نہادتنقید نگاروں سے بچانا ہو گا۔  ان اردو دانوں سے بچانا ہو گا جو ء   اور نقطے کی غلطی کو برداشت نہیں کرتے ۔جملوں میں ساخت کے تنوع کو خوش آمدید کہنا ہو گا ۔ اسےکہنے سے نہیں کرنے سے جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروانا ہو گا۔ مسائل پر بحث کی بجائے مسائل کے حل دینا ہوں گے۔ اگر اسکولوں کے مالک اس کے ٹیکنالوجی سے ربط کے لئے خرچ نہیں کرتے تو ہمیں خود کرنا ہوگا۔ ایسی محافل جہاں لوگ ماڈرن بننے کے لئے انگریزی بول رہے ہوں وہاں اردو بولنا ہوگی۔ ایسے لوگ جو کہتے ہیں اوہ ہمیں تو اردو سمجھ نہیں آتی ان کی طرف صرف دیکھ کر انہیں احساس دلانا ہوگا اپنی اوقات میں رہو۔ تاہم انگریزی کو ضرورت کے لئے اپنانا ہو گا۔ انگریزی میں تحقیق کا جو کام ہو چکا ہے اسے اردو میں بھی لانا ہوگا جو دوسری زبانوں کے ترقی یافتہ لوگوں نے کیا وہ شعار اور طور طریقہ اپنانا ہو گا اردو دوڑے گی اور بھاگے گی اور دوسرے اس کے ناز نخرے اٹھائیں گے۔ اور آخر میں ایک بہت ہی تلخ جملہ کچھ نیا کر تے جائیے کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں اچھا! ا ردو میں بھی یہ ہوتا ہے۔ یقین مانئے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو اردو کی طرف مائل نہیں کیا تو ہماری زبان کا مستقبل اندھیروں کی نظر ہو جائے گا۔ ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئیے کہ اگر اردو پڑھنے والے نہ ہوں گے تو یہ شاعروں کی شاعریاں اور یہ ادیبوں کی ادیبیاں اور یہ کالم نگاروں کی کالم نویسیاں سب  دھری کی دھری رہ جائیں گے چند بوڑھے ہوں گے جو کانپتے ہاتھوں سے چند کتابیں تھامے اس امر کے منتظر ہوں گے کہ کوئی آئے اور انہیں پڑھ کر سنائے۔ آپ ذرا  اپنے اذہان کے تاروں کومرتعش کیجئے اور سوچئیے آج سے کچھ سال بعد کتابوں میں لکھا ہو گا۔ علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں لیکن  ان کی شاعری پڑھنے والا کوئی نہیں۔ شاید کچھ مزدور اور غریبوں کے بچے  اسے  زندہ رکھ لیں اور پھر مڈل کلاس اور انگریزی کے دیوانے لوگوں کی اولادیں  پسماندہ بستیوں کی خصوصیات لکھتے ہوئے یہ بھی لکھیں گے کہ وہاں اردو بولی جاتی ہے۔ میرا مقصد خو ف زدہ نہیں کرنا ، احسا س دلانا ہے ۔ برائے مہربانی اس ڈگر پر آ جائیے جس پر دنیا کی قومیں ہیں ۔ نئی اختراعات اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کے ادب کی تخلیق کی طرف توجہ دیں۔ پھر ہمارے آباء شاعر بھی محفوظ رہیں گے اور ادیب بھی، ہماری تاریخ بھی اور ہماری تہذیب بھی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو کے حوالے سے کڑھنے والے افراد کا یہ گروہ کس طرح اکٹھا ہوکہ اپنا اپنا کردار ادا کر سکے۔ میرے خیال میں اردو مدرسین کوبہت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ وہ عشقیہ غزلوں سے نکلیں اور بچوں کے لئے لکھیں ۔ جدت سے آگہی حاصل کریں کمپیوٹر کا بے دریغ  اور بے خوف استعمال کریں۔ یہ بلاگ اسی مقصد کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ آئیے اپنی کاوش ، اپناکام اور اپنی سوچوں کا تبادلہ کیجئے. بچوں کو اردو سکھا کر اردو کو نئی زندگی دیجئے۔
آخری بات:
خلیل جبران نے ایک بڑی عمدہ تمثیل لکھی ہے۔  بیان کرتا ہے کہ ایک پادر ی کہیں جارہا تھاکہ اس نے کسی کے رونے چلانے اور درد سے کراہنے کی آواز سنی۔ پاس گیا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ہے جو  موت کے قریب ہے ۔ وہ چِلارہا تھا ،  ’’ مجھے پانی کے چشمے تک لے چلو۔‘‘   پادری نے اسے  کندھوں پر لادا اور چشمے کی طرف چل پڑااور سوچا کہ میں کتنا نیک کام کرہا ہوں، ایک بیمار لاچار شخص کو پانی کے چشمے کی طرف لے جا رہا ہوں۔ پھر اس نے اس بوڑھے سے پوچھا، ’’  اے بزرگ ! آپ اپنا نام تو بتا دیجئے۔‘‘  بوڑھے نے جواب دیا، ’’ نہیں میں تمہیں اپنانام نہیں بتا سکتا ۔ کیوں کہ اگر میں نے تمہیں اپنا نام بتا دیا تو تم مجھے چشمے تک نہیں لے جاؤ گے۔ ‘‘جب پادری نے اصرار کیا تو اس بوڑھے نے بتایا کہ اس کا پرانا انام ابلیس ہے اور اور آج کل لوگ اسے شیطان کہتے ہیں۔ پادری نے یہ سنا توبوڑھے کواپنے کندھوں سےاتار کر زمین پر پٹختے ہوئے بولا،  ’’ اے ملعون میں نے تو تمہیں ختم کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ مر جاؤ کہ تمہارا مرنا اس دنیا کے لئے زندگی ہوگا۔‘‘ شیطان ہنس کر بولا، ’’  مجھے اٹھاؤ اور پانی کے چشمے تک لے جاؤ ،میں دنیاکے لئے تو موت ہوں لیکن تمہاری حیات ہوں ، میرے وجود سے تمہارا وجود قائم ہے۔ میری موت میں تمہاری موت ہے۔‘‘  پادری نے کچھ لمحے سوچا اور پھر شیطان کو اپنے کندھوں پر لادا اور چشمے کی طرف چل پڑا۔‘‘



میں نےزیست کے   صحرا میں گرچہ سراب دیکھے ہیں

پھر بھی امید کے تناور درختوں کے خواب دیکھے ہیں

مسجدوں ، اسکولوں سے بھرا ہے شہر سارا،  پھر بھی

میں نے زمیں پر گرے، ادھ موئے شباب دیکھے ہیں

میں کیسے مانوں، کوئی آئے گااور ملک سنوارے گا

روپ میں رہبروں کے رہزن بے حساب دیکھے ہیں

ہر راستہ ،ہر چمن مجھے ویراں سالگنے لگا ہےجب سے

کوُ ڑے کے ڈھیر پہ  جھکتے  نازک  گلاب دیکھے ہیں

کبھی دہشتوں کے پہرے، کبھی مچھروں کے سائے

اس شہرِ بے کراں پہ  ہم نے کیا کیا  عتاب دیکھے ہیں

جہاں رقصاں مسرتیں ہوں ،  جہاں شادماں ہو ہر چہرہ

ایسے شہروں کے میں نےبے شمار خواب دیکھےہیں



میرا رہبر، میرا رہنما کیوں کرسمجھے گا   بات میری

اس نے کب گلیوں میں کھلے گٹروں کے تالاب دیکھے ہیں

                                                                                وارث اقبال