میں نےزیست کے صحرا میں گرچہ سراب
دیکھے ہیں
پھر بھی امید کے تناور درختوں کے خواب دیکھے ہیں
مسجدوں ، اسکولوں سے بھرا ہے شہر سارا،
پھر بھی
میں نے زمیں پر گرے، ادھ موئے شباب دیکھے ہیں
میں کیسے مانوں، کوئی آئے گااور ملک سنوارے گا
روپ میں رہبروں کے رہزن بے حساب دیکھے ہیں
ہر راستہ ،ہر چمن مجھے ویراں سالگنے لگا ہےجب سے
کوُ ڑے کے ڈھیر پہ جھکتے نازک
گلاب دیکھے ہیں
کبھی دہشتوں کے پہرے، کبھی مچھروں کے سائے
اس شہرِ بے کراں پہ ہم نے کیا کیا
عتاب دیکھے ہیں
جہاں رقصاں مسرتیں ہوں ، جہاں شادماں ہو ہر چہرہ
ایسے شہروں کے میں نےبے شمار خواب دیکھےہیں
میرا رہبر، میرا رہنما کیوں کرسمجھے گا بات
میری
اس نے کب گلیوں میں کھلے گٹروں کے تالاب
دیکھے ہیں
وارث
اقبال
No comments:
Post a Comment