بادشاہی
مسجدمغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے ۱۶۷۳ میں تعمیرکروائی ۔ یہ مسجد لاہور، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری
بڑی مسجد اوردنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں
شمار کیا جاتا ہے، ۔اس کا صحن دنیا کی مسجدوں میں سب سے بڑا صحن ہے جس میں دس ہزار نمازی اندر اور دس ہزار صحن میں نماز
پڑھ سکتے ہیں۔،اس کے مینار تاج محل کے میناروں سے13 فٹ9 انچ زیادہ اونچے ہیں۔مسجد
کا صحن 278,784 مربع فٹ(square feet ) وسیع ہے
اورنگزیب عالمگیرکے حکم پر یہ مسجد قلعہءلاہورکے
بالکل سامنے بنائی گئی تاکہ بادشاہ کو آنے
جانے میں آسانی رہے۔ قلعہ میں ایک دروازہ مزیدبنایاگیا جو عالمگیری دروازے کے نام
سے منسوب ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے
زمانہ میں اس مسجد کا بڑا غلط استعمال ہوا،پوری مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل اور اسلحہ
خانہ بنا دیاگیا،چاروں میناروں کے گنبد توپوں کےلئے استعمال کئے گئے جس سے ان کو
سخت نقصان پہنچا، جب لاہور میں انگریزوں کی حکومت آئی تو انہوں نے بادشاہی مسجد سکھوں سے لے کر مسلمانوں کے حوالے کر دی۔
انگریزوں کے ہی دور میں ۱۸۵۲ میں مسجد کی مرمّت کا کام شروع ہوا،اور مسجد میں نماز کے اجتماعات جاری ہوئے۔22 فروری1974ءمیں دوسری اسلامی کانفرنس کے موقع پر 39 اسلامی ممالک کے سر براہوں نے یہاں پر نمازِ جمعہ ادا کی ۔
انگریزوں کے ہی دور میں ۱۸۵۲ میں مسجد کی مرمّت کا کام شروع ہوا،اور مسجد میں نماز کے اجتماعات جاری ہوئے۔22 فروری1974ءمیں دوسری اسلامی کانفرنس کے موقع پر 39 اسلامی ممالک کے سر براہوں نے یہاں پر نمازِ جمعہ ادا کی ۔
اس مسجد کے بڑے دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے
جس میں حضوراکرمﷺ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے تبرکات
رکھے ہوئے ہیں۔سن2000 ءمیں کچھ مرمت کا کام دوبارہ شروع ہوا،سنگِ مر مر کے ٹائلز
لگائے گئے،اور2008 ءمیں صحن میں سرخ پتھر کے ٹائل لگائے گئے۔یہ پتھرپرانے پتھروں
کے مماثل راجستھان( بھارت) سے منگوائے گئے تھے۔
بادشاہی مسجد لاہور کا ڈیزائن جامع مسجد دہلی کی طرز پرہے جس میں اسلامی،ایرانی،مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستانی عمارت کاری کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔بڑے دروازے کی سیڑھیاں سنگِ مر مر کی ہیں۔ اس مسجد کے سات گنبدہیں، درمیان کے تینوں گنبد سفید سنگِ مر مر کے ہیں۔
بادشاہی مسجد لاہور کا ڈیزائن جامع مسجد دہلی کی طرز پرہے جس میں اسلامی،ایرانی،مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستانی عمارت کاری کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔بڑے دروازے کی سیڑھیاں سنگِ مر مر کی ہیں۔ اس مسجد کے سات گنبدہیں، درمیان کے تینوں گنبد سفید سنگِ مر مر کے ہیں۔
مسجد کا ہال جہاں امام کھڑا ہوتا ہے،خوبصورتی کی بہترین کی
بہترین مثال ہے،دیواروں اور چھت پر
خوبصورت رنگوں سے بیل بوٹے بنائے گئے ہیں جب
کے مخلتلف قیمتی پتھروں کا استعمال بھی خوبصورت ی سے کیا گیا ہے۔ ۔قرآنی آیات صرف
دو جگہ لکھی گئی ہیں،ایک بڑےدروازہ پر اور دوسری جگہ محراب و منبر کے اوپر کلمہ
لکھاہوا ہے۔
مقبرہ علّامہ اقبال ؒ بادشاہی مسجد دروازہ کے پاس حضوری باغ میں سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے،یہ مقبرہ مستطیل شکل میں سرخ پتھر سے بنایا گیا ہے،مشرق اور جنوب میں ایک ایک دروازہ ہے اور شمالی دیوار میں سنگِ مر مر کی جالی لگی ہوئی ہے۔اندرونِ مزار علامہ اقبال ؒ کی کتاب ”زبورِ عجم “ سے چھ اشعارمنتخب کرکے خطاطی کی گئی ہے،مزار کا سنگِ مر مر افغانی لوگوں کی طرف سے تحفہ میں دیا گیا تھا۔ مزار پر قرآنی آیات کندہ (carving)کی گئی ہیں.
مقبرہ علّامہ اقبال ؒ بادشاہی مسجد دروازہ کے پاس حضوری باغ میں سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے،یہ مقبرہ مستطیل شکل میں سرخ پتھر سے بنایا گیا ہے،مشرق اور جنوب میں ایک ایک دروازہ ہے اور شمالی دیوار میں سنگِ مر مر کی جالی لگی ہوئی ہے۔اندرونِ مزار علامہ اقبال ؒ کی کتاب ”زبورِ عجم “ سے چھ اشعارمنتخب کرکے خطاطی کی گئی ہے،مزار کا سنگِ مر مر افغانی لوگوں کی طرف سے تحفہ میں دیا گیا تھا۔ مزار پر قرآنی آیات کندہ (carving)کی گئی ہیں.
بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کی عظمت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے ۔
نوٹ: درجِ بالا مضمون
محمد جاوید صدیقی نےkarachiupdates.com/ کے لئے لکھا جسے یہاں بچوں کی آسانی کے لئے
آسان کر کے پیش کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment